صدر کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لئے دعائیں مانگ رہے تھے۔
نماز عصر کے بعد جنیوا کی مسجد میں جنرل صاحب کے ایصال ثواب کے لئے ختم قرآن کریم کا اہتمام کیاگیا تھا۔ نماز عصر سے پہلے میں بھی وہاں پہنچ گیا۔ بہت سے پاکستانی ایمبیسی اور پاکستانی مشن کے افسر اور ملازمین اور عام پاکستانیوں کی کثیر تعداد وہاں جمع ہو گئی۔ قرآن کریم کے کئی ختم ہوئے، کلمہ شریف اور درود شریف پڑھا گیا۔ سب نے اس کا ثواب جنرل صاحب اور آپ کے شہید ساتھیوں کی ارواح طیبہ کو پہنچایا۔
سبھی رنجیدہ اور غمزدہ تھے۔ لیکن جو پٹھان وہاں آئے تھے ان کی حالت بڑی تکلیف دہ تھی۔ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ وہ کہہ رہے تھے آج ہم یتیم ہوگئے۔ ہمارا باپ رخصت ہوگیا۔ اسلام اور پاکستان کی جس دل میں جتنی محبت تھی اسی قدر وہ المناک حادثہ پر غمناک تھا۔ ہفتہ اور اتوار کو مشن کی ہفتہ وار چھٹی تھی۔ سوموار کو پھر اجلاس شروع ہوا۔ سب سے پہلے صدر صاحب اور ان کے ساتھیوں کی حسرتناک وفات پر دلی غم واندوہ کا اظہار کیاگیا اور احتراماً ایک منٹ کھڑے ہوکر اظہار تعزیت کیاگیا۔
۲۶؍اگست کو جمعہ تھا۔ میں نے سفیر صاحب سے پوچھا کہ اگر میرا یہاں کوئی کام ہو تو میں ٹھہرنے کے لئے تیار ہوں۔ لیکن اگر میرا کام ختم ہوگیا ہو تو مجھے واپسی کی اجازت دیں۔ انہوں نے فرمایا کہ آپ کا کام اختتام پذیر ہوگیا ہے۔ اب سب کمیشن کے ممبران خفیہ اجلاس کریں گے۔ جن میں وہ امور جو کمیشن میں زیربحث آتے ہیں۔ ان پر خفیہ رائے شماری کریں گے۔ اس میں ہم کسی قسم کی مداخلت نہیں کر سکتے۔ اس لئے آپ جانا چاہیں تو جاسکتے ہیں۔ چنانچہ بروز جمعہ ساڑھے ۶؍بجے کی فلائٹ پر میں فرینکفرٹ (جرمن) پہنچا۔
فرینکفرٹ (جرمنی) کا ایک مشہور شہر ہے اور جرمنی کا ہوائی اڈہ ہے۔ وہاں دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کے فارغ التحصیل صاحبزادہ عابد حسین صاحب عرصہ دو سال سے خطابت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ان کا اصرار تھا کہ میں ان کے پاس آؤں۔ چنانچہ میں نے واپسی پر ان کے پاس جانے کا پروگرام بنایا اور انہیں اپنی آمد سے مطلع کیا وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایئرپورٹ پر تشریف لائے ہوئے تھے۔ وہاں سے ہی پاک دارالاسلام مسجد تک پہنچے۔ مغرب کی نماز کا وقت ہوچکا تھا۔ نماز ادا کی اس کے بعد احباب کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔
باتوں باتوں میں صاحبزادہ عابد صاحب نے بتایا کہ یہاں کے مرزائیوں کو آپ کی