اسی اثناء میں ۱۷؍اگست۱۹۸۸ء کو ایک عظیم سانحہ وقوع پذیر ہوا۔ جس نے قلوب واذہان کو ہلا کر رکھ دیا۔ ۶؍بجے میں اپنے کام سے فارغ ہوکر بستر پر آرام کرنے کے لئے لیٹا ہی تھا کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ میں نے ریسیور اٹھایا۔ جناب سفیر صاحب بول رہے تھے۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور شاید ان کے کرب والم کی ایسی ہی کیفیت تھی۔ انہیں بھی معلوم نہ تھا کہ کیا کہہ رہے ہیں۔ آخر بمشکل تمام وہ اتنا کہہ سکے کہ صدر صاحب کا طیارہ حادثہ کا شکار ہو گیا۔ یہ سن کر سکتہ کی کیفیت طاری ہوگئی۔ کچھ عرض نہیں کر سکتا کہ وہ کیا کیفیت تھی۔ بارہا دل نے مجبور کیا کہ واپس پاکستان چلا جاؤں۔ لیکن پھر اس خیال نے راستہ روک لیا کہ میں جس فرض کی ادائیگی کے لئے یہاں بھیجا گیا ہوں اس فرض کی ادائیگی سے پہلے اپنا مورچہ چھوڑنا یہ مردانگی نہیں۔ یہ وفاداری نہیں۔ دل جتنا چاہے تلملائے اسے یہیں رہنا ہوگا۔ اپنا فرض ادا کرنے کے لئے اپنی ساری صلاحیتوں کو مصروف کار رکھنا ہوگا۔
ہفتہ کے روز میں اپنے ہوٹل کے کمرہ میں تنہا تھا۔ اخبار میں پڑھا تھا کہ دو بجے پاکستان کے وقت کے مطابق شہید اسلام صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔ جب گھڑی پر گیارہ بجے تو میں نے سوچا اب پاکستان میں دو بچ رہے ہوں گے۔ شاید ٹیلی ویژن والے جنازہ کی کچھ جھلکیاں دکھائیں۔ میں نے ٹیلی ویژن آن کیا۔ سامنے وہ منظر نظر آیا جسے دیکھ کر دل تھام کر رہ گیا۔ پاکستانی فوج کے جیالے اپنے مرحوم صدر کے صندوق کو اٹھا کر لارہے تھے۔ ایک گھنٹہ تک سوئٹرزلینڈ کے ٹیلی ویژن نے براہ راست تمام مناظر براڈ کاسٹ کئے۔ وہ لمحہ بھی آیا کہ وہ دبلا پتلا جنرل ضیاء الحق جس کی آواز کی گرج سے عالمی قوتوں پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا۔ اپنی آخری آرام گاہ میں رکھ دیا گیا۔ جس کے اوپر سینکڑوں من مٹی دال دی گئی۔ وہ آنسو، جو قوم نے اس کے فراق میں بہائے وہ آنکھیں جو گھنٹوں اس کی جدائی پر اشکبار رہیں اور اﷲتعالیٰ سے اس کے لئے اور اس کے ساتھی شہداء کے لئے اس کی رحمت کی بھیک مانگتی رہیں۔ یہ ایک ایسا منظر تھا جو کبھی بھلایا نہ جاسکے گا۔ لاکھوں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موجزن تھا۔ فیصل مسجد کے اردگرد حد نگاہ تک جتنے میدان، جتنی پہاڑیاں، جتنی سڑکیں، جتنی کوٹھیاں تھیں سب لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں۔ حتیٰ کہ مسجد کی چھت پر بھی لوگوں کا ہجوم تھا۔ انتہائی غم واندوہ کے لمحات میں پاکستانی قوم کا نظم وضبط دیکھنے والوں کو ورطۂ حیرت میں مبتلا کر رہا تھا۔ سب انتہائی خضوع وخشوع کے ساتھ سراپا عجز ونیاز بن کر اپنے رحمن اور رحیم، غفار اور ستار خدا کی بارگاہ میں اپنے شہید