بدنام کر کے خوش ہوتے ہیں۔
اثنائے گفتگو میں ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ یہ لوگ کلمہ شریف کا بیج لگاتے ہیں، آپ یہ بیج نوچ لیتے ہیں اور اس پر اپنی برہمی اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ بات آپ کی انسانی حقوق کی پامالی کے زمرہ میں آتی ہے۔
میں نے انہیں عرض کی کہ بیشک ہمیں ان کے اس بیج پر اعتراض ہے اور ہمیں ان کے سینوں پر یہ بیج آویزاں دیکھ کر ناگواری ہوتی ہے۔ لیکن اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کے مرزاقادیانی نے اپنی کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ سورۂ الفتح کی یہ آیت: ’’محمد رسول اﷲ والذین معہ اشدّاء علی الکفار رحماء بینہم‘‘ اس میں پہلا جملہ ’’محمد رسول اﷲ‘‘ یعنی محمد اﷲ کے رسول ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد صرف وہ ذات پاک نہیں جس کا نام ’’محمد‘‘ ان کے جدامجد نے رکھا جو چودہ سو سال سے اسی نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کے دوست بھی، ان کے دشمن بھی، ان کے ماننے والے اور انکار کرنے بھی اسی نام سے ان کو جانتے ہیں۔
مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ اس سے مراد فقط وہ نہیں بلکہ میں بھی ہوں۔ اس سے بڑی جسارت بھی کوئی ہوسکتی ہے؟ قرآن کریم جو ہمارے نزدیک اﷲتعالیٰ کا کلام ہے اور آسمانی صحیفہ ہے۔ اس میں اپنی من مانی تاویل بلکہ من مانی تحریف سے کیا ہمارے دل نہیں دکھتے۔ اگر اقلیت کے انسانی حقوق ہیں تو کیا اکثریت کا کوئی انسانی حق نہیں۔ اگر اقلیت کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا بری بات ہے تو کیا اکثریت کے جذبات کو مجروح کرنا کارثواب ہے؟ یہ آیت لکھ کر وہ آیت کا غلط معنی لیتے ہیں۔ اس لئے ہماری غیرت اس بات کو برداشت نہیں کرسکتی کہ ہمارے نبی کریمﷺ کا نام پاک ذکر کر کے اس سے کوئی ایسا شخص مراد لیا جائے جسے ہم مسلمان ہی نہیں سمجھتے۔
اس گفتگو میں سفیر صاحب جناب سعید دہلوی میری معاونت فرماتے رہے اور جب بھی مجھے ان کی اعانت کی ضرورت محسوس ہوئی بڑی فصاحت وبلاغت کے ساتھ وہ اپنا مدعا مہمانوں کے ذہن نشین کراتے رہے۔ اس کاوش کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ گزشتہ سال ممبران نے کھل کر ان لوگوں کی تائید کی تھی اور پاکستان پر تابڑ توڑ حملے کئے تھے۔ اس سال اﷲتعالیٰ نے ایسا فضل وکرم فرمایا کہ کسی ایک ممبر نے بھی ہمارے خلاف ایک لفظ تک نہیں بولا۔