مسلمان حکومت کا کافر وزیر خارجہ ہوں اور اگر وہ مسلمان نہ تھے تو میں ایک کافر حکومت کا مسلمان وزیرخارجہ ہوں۔‘‘
پاکستان میں قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دئیے جانے کی تفصیلات سے آپ آگاہ ہوں گے۔ لیکن اتنی بات عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ قرارداد مذہبی علماء کی کسی کانفرنس اور کسی اجتماع میں منظور نہیں کی گئی۔ بلکہ اسے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے اتفاق رائے سے منظور کیا تھا اور وہ بھی ہفتوں بلکہ مہینوں کی سوچ بچار اور غور وفکر کے بعد وہ طویل مباحثہ اور علمی مذاکرہ یکطرفہ نہیں تھا۔ بلکہ قادیانی جماعت کے اس وقت کے امیر جناب مرزاناصر احمد نے بھی اپنی جماعت کے علماء اور فضلاء کے ساتھ اس میں شرکت کی تھی اور ایک ایک نکتہ پر گرما گرم بحث ہوئی تھی اور آخر میں مرزاناصر صاحب نے جب یہ اعلان کیا کہ میں مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی مانتا ہوں اور جو شخص ان کی نبوت پر ایمان نہیں رکھتا اس کو کافر سمجھتا ہوں تب پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے تمام ارکان نے متفقہ طور پر اس قرارداد کو پاس کیا اور آپ جانتے ہیں کہ جو قرارداد قانون ساز اسمبلی میں پاس ہو اور اس کو صرف اکثریت نے ہی منظور نہ کیا ہو بلکہ اتفاق رائے سے منظور کی گئی ہو۔ اس کی آئینی اور قانونی حیثیت کا کون انکار کر سکتا ہے؟ اور اس قرارداد کو اتفاق رائے سے پاس کرنے میں بھی مرزاناصر کے اس اعلان کا بڑا دخل ہے جو انہوں نے آئین ساز اسمبلی کے ہال میں سب کے سامنے کیا کہ جو شخص مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی نہیں مانتا وہ کافر ہے۔ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
اس وقت مسلمانوں کی تعداد دنیا میں ایک ارب کے لگ بھگ ہے اور قادیانی ایک لاکھ پچیس ہزار ہیں۔ اگر ان کے امیر کے کہنے کے مطابق صرف یہی مسلمان ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کو بیک قلم دائرہ اسلام سے خارج کر دیا۔ یہ قادیانیوں کا ہی دل گردہ ہے۔ کوئی منصف مزاج شخص ایسا کہنے کی بلکہ ایسا سوچنے کی بھی جسارت نہیں کر سکتا۔
تیسری بات! جو میں نے ان صاحبان کے گوش گزار کی تھی وہ یہ تھی کہ یہ لوگ شور مچا رہے ہیں کہ پاکستان میں ہمارے انسانی حقوق پامال کئے جارہے ہیں۔ ہمیں قتل کیا جارہا ہے۔ ہماری عبادت گاہوں کو پیوند خاک کیا جارہا ہے۔ ہمیں ملازمتوں سے نکالا جارہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ!
اس کے بارے میں عرض ہے کہ پاکستان کے عوام، اسلام کی برکت سے اتنے فراخ دل اور عالی ظرف واقع ہوئے ہیں کہ اس ملک میں بہت سی غیر مسلم اقلیتیں آباد ہیں۔ ہندو،