میں ان سے تبادلہ خیال کیا جائے اور حقیقت حال سے آگاہ کیا جائے۔ اس کے بغیر ہمارے لئے اور کوئی چارہ کار نہ تھا۔
محترم سفیر صاحب نے فرمایا تھا کہ وہ ہر روز کے لئے تین ممبران کو مدعو کریں گے۔ ہفتہ اور اتوار چھٹی ہوتی ہے۔ میں نے یہ دودن مطالعہ میں اور اس موضوع کی تیاری میں صرف کئے۔ سوموار کو میں سفیر کے ساتھ سب کمیشن کے اجلاس میں بحیثیت مبصر شریک ہوا۔ اس اجلاس کے چیئرمین مسٹر بھنڈارا تھے۔ جو بھارت کے نمائندہ تھے۔ نصف گول دائرہ کی شکل میں سٹیج کے سامنے کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ پہلی قطار میں کمیشن کے ممبر صاحبان تشریف فرماتھے۔ دوسری قطار میں ان کے معاونین کے بیٹھنے کے لئے نشستیں تھیں۔ تیسری قطار میں مبصر بیٹھے تھے۔ جن میں میں بھی تھا اور پچھلی دو لائنوں میں غیر حکومتی انجمنوں کے نمائندگان تھے۔ کافی دیر تک میں ممبران کی تقاریر کو سنتا رہا۔ ایک بجے وقفہ ہوا تو میں واپس چلا آیا۔
ہم نے لنچ پر مختلف ممبران سے ملاقات اور تبادلہ خیالات کا جو پروگرام تشکیل دیا اس کی پہلی نشست ۱۶؍اگست ۱۹۸۸ء بروز منگل ہوئی۔ ان میں مصر اور اردن کے معزز ارکان مدعوتھے اور رات کو خصوصی طور پر چین کے ممبر کو ہم نے ڈنر پر بلایا تھا۔ چنانچہ یہ سلسلہ ۲۵؍اگست ۱۹۸۸ء تک جاری رہا۔ اس روز بھی خلاف معمول رات کو ہم نے مسٹر بھنڈارا اور مسز بھنڈار کو ڈنر پر مدعو کیا۔ ان نشستوں میں ماحول بڑا دوستانہ اور تکلف وتصنع سے بالکل مبرّا تھا۔ میں نے ان کو دو تین باتیں سمجھانے کی کوشش کی۔
پہلی بات! تو یہ تھی کہ دنیوی نقطہ نظر سے قوموں کے علیحدہ علیحدہ ہونے کی چند وجوہات ہیں۔ ان میں وطن، زبان، نسل، چہرے کی رنگت وغیرہ کو اہمیت حاصل ہے۔ لیکن مذہبی نقطۂ نظر سے امتوں کی علیحدگی کا ایک ہی سبب ہے جب کسی امت کا خصوصی تعلق ایک نبی کے ساتھ ہو جاتا ہے تو ایک علیحدہ امت معرض وجود میں آجاتی ہے۔ میں نے انہیں کہا مثال کے طور پر آپ مسلمانوں کو لیجئے۔ ہم مسلمان، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو صاحب کتاب، صاحب شریعت نبی اور رسول مانتے ہیں۔ اسی طرح ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی صاحب کتاب، صاحب معجزات نبی اور رسول تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود نہ ہم یہودی ہیں نہ ہم عیسائی۔ چونکہ ہمارا خصوصی تعلق سیدنا محمد رسول اﷲﷺ سے ہے۔ اس لئے ہم مسلمان ہیں اور ایک علیحدہ امت ہیں اور جو عیسائی ممبر ہمارے ساتھ ہوتا میں اس سے عرض کرتا کہ آپ بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مانتے