منصب اور ذمہ داری کسی کو سپرد کی جاتی ہے تو پھر اﷲتعالیٰ خود اس شخص کی امداد کرتا ہے اور راہنمائی فرماتا ہے۔‘‘
میں نے سوچا کہ اس چیز کا مطالبہ میں نے تو نہیں کیا اور نہ اس قسم کی طلب میرے حاشیہ خیال میں کبھی نمودار ہوئی۔ اب اگر یہ فرض میرے ذمہ لگایا گیا ہے تو حسب ارشاد مصطفویﷺ، اﷲتعالیٰ میری مدد اور راہنمائی فرمائے گا اور جب اس کی امداد میرے شامل حال ہوگی تو پھر مشکلیں خود بخود آسان ہوتی جائیں گی۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے میں نے صدر محترم کی اس خواہش کی تکمیل کا عزم کر لیا۔
لاہور سے میں ۸؍اگست کو بھیرہ واپس آیا۔ ۹،۱۰؍اگست دوروز یہیں ٹھہرا اور ضروری انتظامات کئے اور اپنی طویل غیرحاضری میں جو منصبوبے زیرتکمیل تھے ان کے بارے میں اپنے احباب کے ساتھ مشورہ بھی کیا اور انہیں مناسب ہدایات بھی دیں۔ ۱۱؍اگست کو بھیرہ سے روانہ ہوا۔ ساڑھے تین بجے فارن منسٹری کے دفتر میں متعلقہ حکام سے ملاقات کی، رات کو ڈیڑھ بجے پی۔آئی۔اے کی فلائٹ سے جنیوا کے لئے روانہ ہوگیا۔ فرینکفرٹ میں دو اڑھائی گھنٹے انتظار کرنا پڑا پھر لفتھنزا ایئرلائن کے طیارے سے تین بجے دوپہر جنیوا پہنچا۔ عزت مآب سعید دہلوی ایئرپورٹ پر تشریف لائے ہوئے تھے۔ مجھے اپنے ساتھ لے گئے اور انٹر کانٹی نینٹل کے کمرہ نمبر۱۰۲۰ میں مجھے ٹھہرایا۔ میں نے ان سے گذارش کی کہ مجھے یہاں کے حالات سے بالتفصیل آگاہ کریں اور جو پروگرام ہو اس سے بھی مطلع کریں۔
چنانچہ انہوں نے مجھے وہ پمفلٹ دئیے۔ جس میں مرزائیوں نے حکومت پاکستان پر اور پاکستان کے عوام پر ہر قسم کے بے سروپا الزامات عائد کئے ہوئے تھے۔ یہ پمفلٹ باتصویر تھے اور ایک خالی الذہن انسان کو طرح طرح کی غلط فہمیوں میں مبتلا کرنے کے لئے مؤثر ثابت ہوسکتے تھے۔
سفیر صاحب نے بتایا کہ ’’ہیومن رائٹس‘‘ (حقوق انسانی) کے سب کمیشن کا اس دفعہ پاکستان ممبر نہیں ہے۔ اس لئے ہم نہ اس میں تقریر کر سکتے ہیں نہ کسی مقرر کے اعتراض کا جواب دے سکتے ہیں اور نہ ووٹنگ میں حصہ لے سکتے ہیں۔ البتہ بحیثیت مبصر اس اجلاس میں شریک ہو سکتے ہیں۔ اس لئے ہم نے یہ طے کیا کہ ہر روز ان ممبران میں سے دو تین ممبران کو لنچ (صبح کے کھانا) پر مدعو کیا جائے ایک بجے سے تین بجے تک میٹنگ کا وقفہ ہوتا ہے۔ اس وقفہ