مرزائیوں نے ۱۹۸۸ء میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے پاس درخواست دائر کی۔ پاکستانی حکومت ہمارے حقوق پامال کر رہی ہے اور ہمیں اس مملکت سے جائز مراعات سے محروم رکھا جاتا ہے۔ یہ حرکت وہ وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں۔ اس وقت کے ملک کے سربراہ جنرل محمد ضیاء الحق صاحب نے اس عالمی پلیٹ فارم پر مملکت خداداد پاکستان کی نمائندگی کے لئے حضور ضیاء الامتؒ (پیر سید کرم شاہؒ) کا انتخاب کیا۔ آپ نے اس اہم ترین موقع پر جس حسین انداز میں پاکستان اور اسلام کی نمائندگی کی وہ تاریخ کا جزو بن چکی ہے۔ آپ ’’فتنہ مرزائیت اور پاکستان‘‘ کے عنوان سے رقمطراز ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت اپیلیٹ بنچ کا اجلاس ۳۰؍جولائی ۱۹۸۸ء سے لاہور میں منعقد ہورہا تھا۔ اسی اثناء میں مرحوم ومغفور شہید صدر محمد ضیاء الحق کا ٹیلی فون موصول ہوا۔ جس میں انہوں نے مجھے فرمایا کہ یو۔این۔او کے ذیلی ادارہ ہیومن رائٹس (حقوق انسانی) کے سب کمیشن کا اجلاس ۸؍اگست ۱۹۸۸ء سے جنیوا میں منعقد ہورہا ہے۔ وہاں مرزائیوں نے بڑا اودھم مچا رکھا ہے۔ پاکستان کے بارے میں انہوں نے یہ پراپیگنڈا زور وشور سے شروع کر رکھا ہے کہ پاکستان میں ان کو قتل کیا جارہا ہے۔ ان کو ملازمتوں سے چن چن کر نکالا جارہا ہے۔ ان کی عبادت گاہوں کو منہدم کیا جارہا ہے۔ ان کے افراد کو زدوکوب کیا جاتا ہے اور ہر قسم کے انسانی حقوق سے ان کو محروم کیا جارہا ہے۔صدر مرحوم نے مجھے حکم دیا کہ میں وہاں جاکر پاکستان کی نمائندگی کروں۔
مجھے اس قسم کے اجتماعات میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ پہلے تو میں سہما اور خیال کیا کہ صدر محترم سے معذرت کر لوں اور درخواست کروں کہ کسی اور موزوں آدمی کا اس اہم کام کے لئے انتخاب کیا جائے۔ لیکن پھر مجھے یہ حدیث شریف یاد آئی جس میں حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’جس منصب اور ذمہ داری کا کوئی شخص مطالبہ کرتا ہے اور وہ منصب اسے دیا جاتا ہے۔ تو اﷲتعالیٰ اس کو اس کی ذاتی قابلیت کے حوالے کر دیتا ہے کہ تم نے یہ منصب طلب کیا تھا۔ ہم نے تمہیں دے دیا۔ اب تو جان اور تیرا کام، لیکن اگر بن مانگے وہ