ختم نبوت کی تاویلوں کو چھوڑ کر اس اصول کو پورے مفہوم کے ساتھ قبول کر لیں۔ ان کی جدید تاویلیں محض اس غرض سے ہیں کہ ان کا شمار حلقۂ اسلام میں ہوتا کہ انہیں سیاسی فوائد پہنچ سکیں۔
(حرف اقبال ص۱۳۶،۱۳۷)
مرزائی اپنے آپ کو امت تسلیم کرتے ہیں۔ وہ صرف سیاسی اور معاشی فوائد حاصل کرنے کے لئے ملت اسلامیہ میں گھسے رہنا چاہتے ہیں۔ جس کے متعلق حضرت علامہ نے اشارہ کیا ہے۔ جب کبھی پہلے حضرت علامہ اور پنڈت نہرو کے اس علمی مباحثہ کے پڑھنے کا اتفاق ہوتا ہے تو مجھے بڑی حیرت ہوتی کہ پنڈت نہرو کے دل میں قادیانیوں کی ہمدردی کا کیسے یکایک جذبہ پیدا ہوگیا۔
سیاسی، ذہنی اور نظریاتی اعتبار سے مرزائیوں کے درمیان اور ان کے درمیان بعدالمشرقین تھا۔ وہ انگریزوں کے خوشامدی اور ان کے اقتدار کے مضبوط کرنے کے لئے ہر طرح کوشاں اور پنڈت نہرو ہندوستان کی آزدی کے لیڈر اور انگریزی اقتدار کے دشمن، خدا کے منکر، شوشلسٹ انہیں کیا سوجھی کہ وہ قادیانیوں کی وکالت کرنے لگ گئے۔ آخر کار پروفیسر الیاس برنی مرحوم ومغفور کی شہرۂ آفاق کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے ڈاکٹر شنکر داس کا ایک مضمون نظر سے گزرا۔ جس سے وہ اضطرب ختم ہوگیا۔ اخبار بندے ماترم مورخہ ۲۲؍اپریل ۱۹۳۲ء میں ڈاکٹر شنکر داس کا ایک مضمون شائع ہوا۔ اس کے ضروری اقتباسات پیش کرتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’اس سے اہم سوال جو اس وقت ملک کے سامنے درپیش ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے اندر کس طرح قومیت کا جذبہ پیدا کیا جائے… ہندوستانی مسلمان اپنے آپ کو ایک الگ قوم تصور کئے بیٹھے ہیں اور وہ دن رات عرب کے ہی گیت گاتے ہیں۔ اگر ان کا بس چلے تو وہ ہندوستان کو بھی عرب کا نام دے دیں۔‘‘
’’اس تاریکی میں اس مایوسی کے عالم میں ہندوستانی قوم پرستوں اور محبان وطن کو ایک ہی امید کی شعاع دکھائی دیتی ہے اور وہ آشا کی جھلک احمدیوں کی تحریک ہے۔ جس قدر مسلمان احمدیت کی طرف راغب ہوں گے وہ قادیان کو اپنا مکہ تصور کرنے لگیں گے اور آخر میں محب ہند اور قوم پرست بن جائیں گے۔ مسلمانوں میں احمدیہ تحریک کی ترقی ہی عربی تہذیب اور پان اسلام ازم کا خاتمہ کر سکتی ہے۔‘‘
’’جس طرح ایک ہندو کے مسلمان ہو جانے پر اس کی شردھا اور عقیدت رام کشن، وید، گیتا اور رامائن سے اٹھ کر قرآن اور عرب کی بھومی میں منتقل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جب کوئی مسلمان احمدی بن جاتا ہے تو اس کا زاویہ نگاہ بدل جاتا ہے۔ حضرت محمدﷺ میں اس کی عقیدت کم