شخص کی بوالعجبیوں اور اسلام پر اس کی زیادتیوں اور ملت کے خلاف اس کی سازشوں کی کوئی انتہاء نہیں۔ مرزاقادیانی نے صرف اسی پر بس نہیں کی۔ بلکہ امت محمدیہ کے مستحکم قلعہ میں شگاف ڈالنے کی جسارت سے بھی وہ باز نہ آئے۔ وہ عمر بھر ملت اسلامیہ کو پارہ پارہ کر کے اپنے انگریز محسنوں کے قدموں پر لاڈالنے کے لئے سرگرداں رہے۔
ان دشمنان دین وملت کی گستاخیاں، قرآن کریم کی آیات میں واضح تحریف اور امت محمدیہ علی صاحبہا افضل الصلوٰۃ والتسلیمات کے خلاف ریشہ دوانیوں کی طویل داستان آپ نے ملاحظہ فرمائی۔ لیکن اس گھناؤنی سازش کے ایک انتہائی سنسنی خیز کردار کو بے نقاب کرنے کے لئے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ قارئین کی خدمت میں مفکر اسلام شاعر مشرق ترجمان حقیقت حضرت علامہ اقبالؒ کے اس مضمون کا اقتباس پیش کیا جائے۔ جو انہوں نے جواہر لال نہرو کے سوالات کے جواب میں لکھا تھا۔
اس میں انہوں نے مسئلہ کی نزاکتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بحث کی ہے اور آخری فقرے میں اس چیز کو بڑی جامعیت کے ساتھ بیان کردیا ہے کہ ان مندرجہ بالا اختلافات کے باوجود مرزائی امت مسلمہ سے اپنے آپ کو ایک الگ امت کیوں نہیں مانتے۔
علامہ لکھتے ہیں۔ ’’اسلام لازماً ایک دینی جماعت ہے جس کی حدود مقرر ہیں۔ یعنی وحدت الوہیت پر ایمان، انبیاء پر ایمان اور رسول کریم کی ختم رسالت پر ایمان دراصل یہ آخری یقین ہی وہ حقیقت ہے جو مسلم اور غیرمسلم کے درمیان وجہ امتیاز ہے اور اس امر کے لئے فیصلہ کن ہے کہ فرد یا گروہ ملت اسلامیہ میں شامل ہے یا نہیں۔ مثلاً برہمو سماج خدا پر یقین رکھتے ہیں اور رسول کریم کو خدا کا پیغمبر مانتے ہیں۔ لیکن انہیں ملت اسلامیہ میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ قادیانیوں کی طرح وہ انبیاء کے ذریعہ وحی کے تسلسل پر ایمان رکھتے ہیں اور رسول کریم کی ختم نبوت کو نہیں مانتے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے کوئی اسلامی فرقہ اس حد فاصل کو عبور کرنے کی جسارت نہیں کر سکا۔
ایران میں بہائیوں نے ختم نبوت کے اصول کو صریحاً جھٹلایا۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ الگ جماعت ہیں اور مسلمانوں میں شامل نہیں ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ اسلام بحیثیت دین کے خدا کی طرف سے ظاہر ہوا۔ لیکن اسلام بحیثیت سوسائٹی یا ملت کے رسول کریم کی شخصیت کامرہون منت ہے۔‘‘
میری رائے میں قادیانیوں کے سامنے صرف دوراہیں ہیں یا وہ بہائیوں کی تقلید کریں یا