ہو جاتی ہے۔ مکہ، مدینہ اس کے لئے روایتی مقامات رہ جاتے ہیں۔ یہ بات عام مسلمانوں کے لئے جو ہر وقت پان اسلام ازم اور پان عربی سنگٹن کے خواب دیکھتے ہیں کتنی ہی مایوس کن ہو۔ مگر ایک قوم پرست کے لئے باعث مسرت ہے۔‘‘
حضرت علامہ اقبالؒ کے مقالہ کے اقتباسات اور ڈاکٹر شنکر داس کے مندرجات سے یہ بات پوری طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ مرزائی جماعت کی اصلیت کیا ہے اور یہ کس مسلم کش تحریک کا شاخسانہ ہے۔ اب جب کہ مملکت خداداد پاکستان کی ایک منتخب اسمبلی کی طرف سے اس خطرناک اقلیت کو غیرمسلم قرار دیا جاچکا ہے اور اسی اسمبلی کی طرف سے یہ قرارداد بھی پاس ہوچکی ہے کہ مرزائیوں کو کلیدی آسامیوں سے الگ کر دیاجائے اور انہیں اپنے باطل عقائد کی تبلیغ کی ہرگز اجازت نہ دی جائے تو پھر کیا وجہ ہے کہ آج تک ارباب بست وکشاد کی طرف سے اس سلسلہ میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اور آج تک کوئی واضح اقدام نہیں کیاگیا۔
ستم کی بات تو یہ ہے کہ اس اسلامی جمہوریہ کے مختلف تعلیمی اداروں میں غیرمسلم مرزائی۱؎ اسلامیات کی تعلیم دینے پر مامور ہیں اور طلباء کے معصوم اذہان کو مسموم کرنے کے دھندوں میں مصروف ہیں۔ عوام کے باربار اصرار کے باوجود محکمہ تعلیم کے کارپرداز ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ واضح رہے کہ مرزائی جماعت پٹیل اور گاندھی سے بھی زیادہ پاکستان کے بارے بداندیش ہے۔ ان کے کارکنوں نے کسی زمانہ میں بھی پاکستان کو کمزور بنانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ سرظفر اﷲ کی وزارت کا دور ہو یا ایم ایم احمد کی اقتصادی پالیسی ہر ایک نے پاکستان کو کھوکھلا ہی کیا ہے۔ اس لئے مملکت خداداد پاکستان کی ہر بہی خواہ حکو مت کا فرض ہے کہ وہ اس اقلیت کو کلیدی آسامیوں خصوصاً محکمہ تعلیم سے دور رکھے اور ان کی نام نہاد مذہبی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرے۔ کیونکہ کسی بھی اسلامی نظریاتی سلطنت میں خلاف دین اور خلاف وطن سرگرمیوں کو برداشت نہیں کیاجاسکتا۔
اﷲتبارک وتعالیٰ کی بارگاہ اقدس میں دعا ہے کہ وہ اپنے محبوب کریم روؤف رحیمﷺ کے طفیل امت مسلمہ کو ہر قسم کے ظاہری وباطنی دشمنوں سے محفوظ رکھے اور اس مملکت خداداد پاکستان کی آپ حفاظت فرمائے اور ہمیں توفیق ارزانی فرمائے کہ ہم یہاں اس کے محبوبﷺ کا لایا ہوا نظام نافذ کر سکیں۔ آمین بجاہ حبیبہ الامینﷺ!
۱؎ گورنمنٹ انٹر کالج بھیرہ ضلع سرگودھا اور گورنمنٹ البیرونی ڈگری کالج پنڈدادنخاں اس کی واضح مثالیں ہیں۔