پڑھئے۔ آنجہانی کی حقیقت آپ پر واضح ہو جائے گی۔ آپ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید وحمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں کہ اگر وہ اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب، مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔ میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ بن جائیں اور مہدی خونی اور مسیح خونی کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں ان کے دلوں سے معدوم ہو جائیں۔‘‘
(تریاق القلوب ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵،۱۵۶)
ایک دوسرے مقام پر اپنی کتابوں کی کثرت کا اظہار کرنے کے بعد ان کے اثرات کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں: ’’اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لاکھوں انسانوں نے جہاد کے غلط خیال چھوڑ دئیے۔ جو نافہم ملاؤں کی تعلیم سے ان کے دلوں میں تھے۔ یہ ایک ایسی خدمت مجھ سے ظہور میں آئی ہے کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ برٹش انڈیا کے تمام مسلمانوں میں سے اس کی نظیر کوئی مسلمان نہیں دکھلا سکتا۔‘‘ (ستارۂ قیصرہ ص۴، خزائن ج۱۵ ص۱۱۴)
مرزاقادیانی نے منارۃ المسیح کی تعمیر کے لئے چندہ کرنے کے لئے جو اشتہار دیا اس کے چند الفاظ بھی ملاحظہ فرمائیں: ’سو آج سے دین کے لئے لڑنا حرام کیاگیا۔ اب اس کے بعد جو دین کے لئے تلوار اٹھاتا ہے اور غازی کا نام رکھوا کر کافروں کو قتل کرتا ہے وہ خدا اور اس کے رسول کا نافرمان ہے۔‘‘ (اشتہار چندہ منارۃ المسیح ضمیمہ خطبہ الہامیہ ص ت، خزائن ج۱۶ ص۱۷)
ان کے دو شعر بھی سن لیجئے کہتے ہیں ؎
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد
منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دین کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
(درثمین ص۵۴، تحفہ گولڑویہ ص۲۶،۲۷، خزائن ج۱۷ ص۷۷،۷۸) جس نے امت کو انگریز کی ابدی غلامی کے لئے تیار کرنے میں ساری عمر کھپا دی ہو ہم مجبور ہیں کہ اسے ملت کا بدخواہ اور غدار قرار دیں۔ جس طرح خارش زدہ کتے کو مسجد میں ہم داخل نہیں ہونے دیتے۔ اسی طرح ہم ایسے غداروں کو حرم ملت کے پاس تک نہیں بھٹکنے دیں گے۔ اس