تائیدات میں یکتا ہوں اور مجھے حق ہے کہ میں یہ کہوں کہ میں اس حکومت کے لئے تعویذ اور ایسا قلعہ ہوں جو اس کو آفات ومصائب سے محفوظ رکھنے والا ہے اور میرے رب نے مجھے بشارت دی اور فرمایا کہ اﷲ ان کو عذاب نہیں دے گا۔ جب تک تم ان میں ہو۔ بس حقیقتاً اس حکومت کے پاس میرا کوئی ہمسر اور نصرت وتائید میں میرا کوئی مثیل نہیں۔ اگر خدا نے اس حکومت کو مردم شناسی کی نگاہ عطاء کی ہے تو وہ اس کی تصدیق کرے گی۔‘‘ (نورالحق حصہ اوّل ص۳۲،۳۳، خزائن ج۸ ص۴۵)
آپ ان الفاظ کو باربار غور سے پڑھئے کیا انگریز جیسی دشمن دین وملت قوم کے لئے کسی گنہگار سے گنہگار مسلمان کی زبان سے یہ جملے نکل سکتے ہیں جو شخص انگریزوں کی حکومت کے لئے قلعہ کا کام دے رہا ہو اور جس کا وجود اس ناپاک اقتدار کی ضمانت ہو۔ وہ غلامان مصطفیٰﷺ کی صفت میں کھڑا ہونے کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ خوشامد وتملق کا یہ سلسلہ بڑا طویل ہے۔ آخر میں ایک اور حوالہ پیش کرنے پر اکتفاء کرتا ہوں۔ یہ انداز لگانا آپ کا کام ہے کہ مرزاقادیانی ذلت کی کن پستیوں میں گر چکے تھے۔ چوبیس فروری ۱۸۹۸ء کوانہوں نے ایک درخواست لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کی خدمت میں ارسال کی۔ جس کا ایک پیرا آپ بھی پڑھئے۔
’’یہ التماس ہے کہ سرکار دولت مدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس سال کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جانثار خاندان ثابت کر چکی اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے خیرخواہ اور خدمت گذار ہیں۔ اس خود کاشتہ پودے کی نسبت نہایت حزم واحتیاط سے تحقیق وتوجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھے۔‘‘
(کتاب البریہ ص۱۳، خزائن ج۱۳ ص۳۵۰)
کوئی شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ انگریز مذہباً عیسائی تھے۔ مرزاقادیانی نے عیسائیوں کے ساتھ مناظرے بھی کئے۔ اشتہار بھی نکالے۔ پمفلٹ بھی چھاپے اور کتابیں بھی تصنیف کیں اور ان میں عیسائیوں کو خوب رگیدار ہے۔ ان کی یہ خدمت کیا کوئی کم ہے۔ اس کے بارے میں عرض ہے کہ پس پردہ حقیقت کچھ اور ہے جس سے مرزاقادیانی نے پردہ اٹھایا ہے۔ ان کی تصنیف (تریاق القلوب ضمیمہ نمبر۳ ص ب،ج، خزائن ج۱۵ ص۴۹۰) ہے۔ جن کا عنوان ملاحظہ کے قابل ہے۔