کیا ایسے شخص کے دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے متعلق ہمیں کسی عالم سے مسئلہ دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ ہرزہ سرائیاں ہیں۔ جن کی جرأت اس سے پہلے آنے والے جھوٹے مدعیان نبوت کو نہ ہوسکی۔ اسے ہم اپنے ایمان کی کمزوری کہیں یا انگریز کی سنگینوں کا کرشمہ اس کے وجود کو برداشت کیا جاتا رہا ہے۔ ورنہ راجپال اور لیکھرام وغیرہ کی بکواسیات اس کے مقابلہ میں کوئی وقعت نہیں رکھتیں۔
اب آپ خود فیصلہ کریں کہ وہ عقیدۂ جس پر ابتداء سے آج تک امت محمدیہ علی صاحبہا افضل الصلوٰۃ والسلام کا اجماع رہا ہو اور جس زمانہ میں جس کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہو اسے صرف کافر ومرتد قرار نہ دے دیا گیا ہو۔ بلکہ اس کا استیصال اور قلع قمع کر دیا گیا ہو تو آج ایسا شخص یا گروہ ملت اسلامیہ کا جزو کیسے رہ سکتا ہے؟ خصوصاً مرزاغلام احمد قادیانی جس کی گستاخیاں اور آیات قرآنی میں تحریفات کی یہ کیفیت ہو اس کو اسلام اپنے ماننے والوں کی صفوں میں کیسے برداشت کر سکتا ہے؟
مرزاقادیانی اور ان کے جانشینوں کی مستند تحریروں سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انہیں نہ امت مسلمہ کے ماضی سے کوئی عقیدت ہے نہ اس کے حال سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ مستقبل کے بارے میں ہماری امنگوں میں کوئی یکسانیت ہے۔ ملت اسلامیہ کے جو دشمن تھے یہ لوگ انہیں سرپرست سمجھتے رہے۔ جس انگریز نے برصغیر میں اسلامی اقتدار کا چراغ گل کیا۔ ہماری ثقافتی اور تہذیبی قدروں کو بے رحمی سے روند ڈالا۔ ہمارے اوقات کو درہم برہم کر دیا۔ ہمارے مدارس اور علمی ادارے مقفل کر دئیے۔ وہ انگریز جن کی خون آشام تلوار ہمارے لاکھوں بے گناہوں کے قتل کے بوجھ سے خم ہے۔ جنہوں نے ہمارے فخر روزگاں علماء وفقہاء واتقیاء کو درختوں کے تنوں کے ساتھ باندھ کر گولی سے اڑا دیا۔
حضرت مولانا فضل حق خیرآبادی اور ان کے جاں نثار ساتھی رحمتہ اﷲ علیہم جزائر انڈیمان میں انگریزوں کی سفاکانہ قید میں جام شہادت نوش کر گئے۔ وہ انگریز جن کے ناپاک ہاتھ ملت کی ردائے ناموس کو تارتار کرنے میں اس وقت بھی کوشاں تھے۔ کیا کسی باغیرت مسلمان کے دل میں ان دشمنان اسلام کے لئے خیرسگالی کے جذبات پائے جاسکتے ہیں۔ لیکن مرزاقادیانی ساری عمر ان کی چاپلوسی میں لگے رہے۔ انہی کی مدح سرائیاں، انہی کے لئے دعائیں، انہی کے پنجۂ استبداد کو مضبوط کرنے کے لئے تقریری اور تصنیفی میدان میں مخلصانہ کوششیں، خود ہی فیصلہ کیجئے کہ اگر ملت اسلامیہ اور فرقۂ قادیانیہ میں ان کے علاوہ اور کوئی اختلاف نہ ہوتا تو کیا ایسے غداروں