میرے آنے سے ہر نبی زندہ ہوگیا ہے اور ہر رسول میرے کرتے میں چھپا ہوا ہے۔ آپ یہ نہ سمجھئے یہ شاعرانہ مبالغہ آرائی ہے اور اشعار میں ایسی تک بندیاں ہو ہی جاتی ہیں۔ میں آپ کو ایک ایسا اقتباس پیش کرتا ہوں۔ جس سے آپ اندازہ لگائیں گے کہ وہ اپنے آپ کو فخر کائنات سید موجوداتؓ سے بھی برتر سمجھتا ہے اور اس کے لئے اس نے تناسخ اور حلول کا مشرکانہ اور ملحدانہ نظریہ بھی اسلام میں داخل کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے۔ اپنے خطبہ الہامیہ میں آنجہانی لکھتے ہیں۔ عربی متن اور ترجمہ دونوں ان کااپنا ہے۔
’’واعلم ان نبیناﷺ کما بعث فی الالف الخامس کذلک بعث فی آخر الالف السادس باتخاذہ بروز مسیح الموعود‘‘ اور جان کہ ہمارے نبیﷺ جیسا کہ پانچویں ہزار میں مبعوث ہوئے ایسا ہی مسیح موعود کی بروزی صورت اختیار کر کے چھٹے ہزار کے آخر میں مبعوث ہوئے۔
آپ مقصد سمجھ گئے کہ مرزاقادیانی کی شکل میں حضورﷺ کی دوسری بعثت ہوئی۔ اب ذرا دل تھام کر یہ بھی پڑھئے۔ ’’بل الحق ان روحانیۃ علیہ السلام کان فی آخر الالف السادس اعنی فی ہذہ الایام اشد واقویٰ واکمل من تلک الاعوام بل کالبدر التام‘‘ بلکہ حق یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کی روحانیت چھٹے ہزار کے آخر میں یعنی ان دنوں میں یہ نسبت ان سالوں کے قوی اور اکمل اور اشد ہے۔ بلکہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہے۔
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ گستاخ اپنے آپ کو چودھویں کا چاند کہہ رہا ہے اور حضورﷺ کو ہلال سے تشبیہہ دے رہا ہے۔
اے مرزائیو! ’’لقد جئتم شیئاً اذ تکاد السمٰوٰت یتفطرن منہ وتنشق الارض وتخرالجبال ہدا (مریم:۹۰)‘‘
ان خرافات سے بھی زیادہ دلوں کو مجروح کرنے والی وہ تحریفات ہیں جو مرزاقادیانی آنجہانی نے ان آیات الٰہیہ میں روا رکھیں۔ جن میں اﷲتعالیٰ نے اپنے محبوب کو مختلف انعامات واحسانات سے سرفراز فرمایا۔ اس نے ازراہ گستاخی یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔
چنانچہ (اربعین نمبر۳ ص۲۳) پر لکھتا ہے: ’’اﷲتعالیٰ نے اس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’وما ارسلنٰک الا رحمۃ اللعالمین‘‘ نیز اسی آیت کے بارے میں بھی کہا کہ یہ بھی میرے