زمانہ کے الہامات جن کو وہ منجانب اﷲ خیال کر رہے تھے۔ وہ شیطانی الہامات تھے۔ ان کا حق وصداقت سے کوئی رابطہ نہ تھا۔ عین ممکن ہے بلکہ یہ حق ہے کہ ان کے بعد والے خیالات جنہیں وہ وحی الٰہی کہنے پر مصر ہیں۔ وہ ابلیس لعین کی وسوسہ انگیزیاں تھیں۔ ان کا حق وصداقت سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ ورنہ یہ کیسے تسلیم کیا جائے کہ ایک مرتبہ تو من جانب اﷲ انہیں یہ القاء ہوکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد کسی رسول کا آنا جائز نہیں۔ اجرائے نبوت محال ہے اور جو نبوت کا دعویٰ کرے وہ کاذب اور کافر ہے اور اسی خدا کی طرف سے وحی ہوکہ تو نبی ہے اور رسول ہے۔ اﷲتعالیٰ کی جانب اس بیّن تضاد کی نسبت کو جہالت اور حماقت کے سوا اور کیا کہاجاسکتا ہے؟
آنجہانی مرزاقادیانی ان مراحل سے گزر کر ۱۸۸۲ء میں مجدد بنے اور مامور من اﷲ کے لقب سے اپنے آپ کو نوازا۔ ۱۸۹۱ء میں مسیح موعود ہونے کا سوانگ رچایا۔ آخر کار انگریز کی عقل فتنہ زانے بناوٹی نبوت کا جو سنگھاسن تیار کیا تھا اس پر آکر براجمان ہوگئے۔
۱۹۰۰ء میں اپنی مسجد کے خطیب مولوی عبدالکریم سے ایسا خطبہ دلوایا جس میں ان کی نبوت کا کھلا اعلان تھا۔ خطیب صاحب نے مرزاقادیانی کے لئے نبی اور رسول کے الفاظ استعمال کئے۔ اس خطبہ کو سن کر مولوی احسن صاحب امروہی نے بڑی ناراضگی کا اظہار کیا۔ مولوی عبدالکریم نے ایک اور خطبہ پڑھا۔ جس میں مرزاقادیانی کو مخاطب کرتے ہوئے اس نے کہا کہ اگر میں غلطی کرتا ہوں تو حضورﷺ مجھے بتلائیں۔ میں حضور کو نبی اور رسول مانتا ہوں۔ جب جمعہ ختم ہوچکا تو مولوی صاحب نے اپنے سوال کا پھر جواب پوچھا۔ مرزاقادیانی نے مڑ کر کہا مولوی صاحب ہمارا بھی یہی مذہب اور دعویٰ ہے جو آپ نے بیان کیا۔ مرزاقادیانی چلے گئے اورمولوی احسن اور مولوی عبدالکریم کے درمیان اس بارے میں خوب جھگڑا ہوا اور آواز بہت بلند ہوگئی تو مرزاقادیانی مکان سے نکلے اور یہ آیت پڑھی: ’’یا ایہا الذین اٰمنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی (حجرات:۳)‘‘ {اے ایمان والو! نبی کی آواز سے اپنی آواز بلند نہ کرو۔}
یہ تھا مرزاقادیانی کا دعویٰ نبوت کرنے کا انداز۔ اب آپ ملاحظہ فرمائیں ان کی وہ ہرزہ سرائی جو بزعم خویش بحیثیت ایک نبی کے وقتاً فوقتاً ان سے سرزد ہوتی رہی۔ ۱۹۰۲ء میں آنجہانی نے ایک رسالہ ’’تحفہ الندوہ‘‘ کے نام سے لکھا اس میں کہتے ہیں۔ ’’پس جیسا کہ میں نے باربار اعلان کر دیا ہے کہ یہ کلام جو میں سناتا ہوں یہ قطعی اور یقینی طور پر خدا کا کلام ہے۔ جیسا کہ قرآن اور توراۃ خدا کا کلام ہے اور میں خدا کا ظلی وبروزی نبی ہوں اور ہر ایک مسلمان کو دینی امور میں میری اطاعت واجب ہے۔‘‘ (تحفۃ الندوہ ص۳، خزائن ج۱۹ ص۹۵)