ورطۂ حیرت میں ڈالنے والی اور دلچسپ ہے۔ تفصیل کی گنجائش نہیں۔ صرف موٹی موٹی باتیں عرض کروں گا کہ کس طرح مرزاقادیانی سیالکوٹ میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں دس پندرہ روپے کی ملازمت اختیار کرنے کے بعد اور پھر مختاری کے امتحان میں فیل ہونے کے بعد نبوت کے قصر رفیع میں ایک مرصع اور زرنگار تخت پر جلوہ افروز ہوگئے۔
ابتداء میں یہ عام مسلمانوں کی طرح ختم نبوت کے قائل تھے اور حضور کریمﷺ کے بعد کسی نبی کے آنے اور اس پر نزول وحی کو محال سمجھتے تھے اور ایسے دعویٰ کرنے والے کو کافر اور کاذب کہا کرتے تھے۔ چنانچہ ان کی اپنی تحریروں سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔
(ازالہ اوہام) پر رقمطراز ہیں: ’’قرآن کریم بعد خاتم النبیین کے کسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ دوم ص۵۷۵، خزائن ج۳ ص۴۱۰)
(اس کتاب کی جلد دوم ص۲۹۲) پر لکھتے ہیں: ’’ماکان محمد ابااحد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین یعنی محمدﷺ تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں ہے۔ مگر وہ رسول اﷲﷺ ہے اور ختم کرنے والا ہے۔ نبیوں کو یہ آیت بھی صاف دلالت کر رہی ہے کہ بعد ہمارے نبیؓ کے کوئی رسول دنیامیں نہیں آئے گا۔‘‘
تیسرا حوالہ ملاحظہ ہو فرماتے ہیں: ’’یہ بات مستلزم محال ہے کہ خاتم النبیین کے بعد جبرائیل علیہ السلام کی وحی رسالت کے ساتھ زمین پر آمدورفت شروع ہو جائے اور ایک نئی کتاب اﷲ گو مضمون میں قرآن شریف سے توارد رکھتی ہو۔ پیدا ہو جائے اور جوامر مستلزم محال ہو وہ محال ہوتا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ دوم ص۵۸۷، خزائن ج۳ ص۲۱۴)
آخر میں ایک اور حوالہ سنئے۔ جس میں مرزاقادیانی نے صاف الفاظ میں ایسے شخص کو کافر اور کاذب کہا ہے جو حضورﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے۔
’’سیدنا مولانا حضرت محمد مصطفیٰﷺ ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں۔‘‘ (دین الحق ص۲۷، مجموعہ اشتہارات ج اوّل ص۲۳۰،۲۳۱)
یہ خیال رہے کہ مرزاقادیانی کے یہ ارشادات اس زمانہ سے تعلق نہیں رکھتے۔ جب وہ دس پندرہ روپے کے مشاہرہ پر سیالکوٹ کچہری میں ایک معمولی ملازم تھے یا ابھی وہ کورانہ تقلید کی منزل طے کر رہے تھے۔ بلکہ یہ اس زمانے کی تحریریں ہیں۔ جب کہ ان پر ان کے قول کے مطابق براہ راست الہام ہوا کرتا تھا اور معارف قرآن کا ان کے دل میں منجانب اﷲ القاء ہوا کرتا تھا۔ آگے چل کر انہوں نے ان عقائد کے برعکس نئے عقائد کو اپنایا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس