(تتمہ حقیقت الوحی) پر لکھتے ہیں: ’’میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اس نے مجھے بھیجا اور اسی نے میرا نام نبی رکھا ہے۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۶۸، خزائن ج۲۲ ص۵۰۳)
(حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶) پر مرقوم ہے: ’’نبی کا نام پانے کے لئے میں مخصوص کیاگیا۔‘‘ دافع البلاء میں اپنے بارے ڈینگ مارتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’تیسری بات جو اس وحی سے ثابت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ خداتعالیٰ بہرحال جب تک کہ طاعون دنیا میں رہے گو ستر برس تک رہے قادیان کو اس کی خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا۔ کیونکہ یہ اس کے رسول کا تخت گاہ ہے۔‘‘
(دافع البلاء ص۱۰، خزائن ج۱۸ ص۲۳۰)
اسی صفحہ پر آگے لکھتے ہیں: ’’اب اگر اﷲتعالیٰ کے رسول اور اس نشان سے کسی کو انکار ہوکہ فقط رسمی نمازوں اور دعاؤں سے… باوجود مخالفت اور دشمنی اور نافرمانی اس رسول کے طاعون دور ہوسکتی ہے تو یہ خیال بغیر ثبوت کے قابل پذیرائی نہیں۔‘‘ (دافع البلاء ص۱۰، خزائن ج۱۸ ص۲۳۰)
مرزاقادیانی کی تصنیف لطیف ایک غلطی کا ازالہ کا ایک حوالہ بھی پیش خدمت ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’خداتعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوئی ہے۔ اس میں ایسے لفظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص۱، خزائن ج۱۸ ص۲۰۶)
مرزابشیرالدین آنجہانی نے مرزاقادیانی کی نبوت کے بارے میں جو تشریح کی ہے۔ اس کے بعد اس مسئلہ میں شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ہم حضرت مسیح موعود کی نبوت پر نظر ڈالتے ہیں تو آپ کی نبوت میں وہ تمام باتیں پائی جاتی ہیں جو نبی اﷲ کے لئے لغت وقرآن ومحاورۂ انبیاء گذشتہ سے لازمی معلوم ہوتی ہے… پھر یہ کہ آپ کا نام اﷲتعالیٰ نے نبی رکھا ہے۔ پس آپ قرآن کریم ولغت اور محاورۂ انبیاء گذشتہ کے مطابق نبی تھے۔‘‘
(حقیقت النبوۃ حصہ اوّل ص۶۳)
اس قسم کے دعاوی سے مرزاقادیانی کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ ان واضح اقتباسات کے مطالعے کے بعد بھی اگر کوئی شخص اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ مرزاقادیانی نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا وہ صرف اپنے آپ کو مجدد یا مہدی کہا کرتے تھے۔ ایسے شخص کی سادہ لوحی پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔