دی۔ یہ تو معلوم نہیں وہ چیز کیا تھی۔ البتہ اتنا جانتا ہوں وہ شہد سے زیادہ شیریں مشک سے زیادہ خوشبودار اور برف سے زیادہ سرد تھی۔ اس نعمت خداوندی کا حلق سے نیچے اترنا تھا کہ میری زبان گویا ہوگئی اور میری منہ سے یہ کلمہ نکلا۔ ’’اشہد ان لا الہ الا اﷲ واشہد ان محمد رسول اﷲ‘‘ یہ سن کر فرشتوں نے کہا کہ محمد کی طرح تم بھی رسول ہو۔ میں نے کہا میرے دوستو! تم یہ کیسی بات کر رہے ہو؟ مجھے اس سے سخت حیرت ہے۔ بلکہ میں تو عرق خجالت میں ڈوبا جاتا ہوں۔ فرشتے کہنے لگے۔ خدائے قدوس نے تمہیں اس قوم کے لئے نبی مبعوث فرمایا ہے۔ میں نے کہا کہ جناب باری نے تو سیدنا محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام روحی فداہ کو خاتم الانبیاء قرار دیا اورآپ کی ذات اقدس پر نبوت کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا۔ اب میری نبوت کیا معنی رکھتی ہے۔ کہنے لگے درست ہے۔ مگر محمدﷺ کی نبوت مستقل حیثیت رکھتی ہے اور تمہاری بالتبع اور ظلی وبروزی۱؎ ہے۔
(آئمہ تلبیس ص۱۱۰)
مرزاقادیانی نے اس موضوع پر جو طومار لکھے ہیں ان کا مطالعہ فرمائیے۔ یہی چیز ہے جس میں ہیرپھیر کر کے انہوں نے اپنی نبوت کا سوانگ رچایا ہے۔ مرزاقادیانی نے وحی کا جو انداز اپنایا ہے وہ بھی ان کے قاری کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ قرآن کریم کی آیت کا کوئی حصہ لیا۔ حدیث کا کوئی فقرہ چرایا۔ ایک دو لفظ اپنی طرف سے بڑھادئیے اور اسے وحی کا نام دے کر سادہ لوح لوگوں پر اپنی نبوت کا رعب جمایا۔ لیکن ان کا یہ انداز بھی طبع زاد نہیں بلکہ اس کوچۂ ضلالت میں جو لوگ پہلے آوارہ گردی کرتے رہے انہی کی ان صاحب نے بھی نقل اتارنے کی کوشش کی ہے۔ حمدان بن اشعث ایک صاحب گزرے ہیں۔ اس نے بھی مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور امام محمد بن حنفیہ کے فرزند احمد کی رسالت کا اعلان کیا۔ اس نے اپنے معتقدین کو ایک خود ساختہ سورت نماز میں پڑھنے کی تلقین کی۔ اس سورت کے چند فقرے آپ بھی ملاحظہ فرمائیے: ’’الحمد ﷲ بکلماتہ وتعالیٰ باسمہ قل ان الاہلۃ مواقیت للناس ظاہرھا لیعلم عدد السنین والحساب اتقوا فی یا ولی الالباب وانا الذی الااسئل عما افعل وانا العلیم الحکیم‘‘
مرزاقادیانی نے بھی بے شمار دعوے کئے ہیں۔ میں مسیح ہوں۔ میں عیسیٰ ہوں۔ میں
۱؎ اسحاق اخرس ہو یا مرزاقادیانی ہردو کی یہ ہرزہ سرائی کہ میں ظلی نبی ہوں یا بروزی نبی ہوں۔ ان کے ذہنوں کی یہ شیطانی تلبیس ہے۔ وگرنہ پورے اسلامی کلچر (قرآن، حدیث،کتب سیر وغیرہ) میں اس کا کوئی وجود نہیں۔