دجل وفریب کا شکار ہوکر عقیدۂ ختم نبوت سے انکار نہیں کر سکتا اور نہ کسی کی چرب زبانی سے متأثر ہوکر اس کی نبوت کا اقرار کرسکتا ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان روشن ارشادات سے تمام فرزندان اسلام پر حجت تمام کر دی۔ اب اگر کوئی گمراہی کے اس غلیظ اور گہرے گھڑے میں گرنا چاہتا ہے تو اس کی مرضی اس کے مرشد کامل نے تو اس کو سمجھانے کا حق ادا کر دیا۔
جب نبی صادق ومصدوق نے یہ فرمایا کہ تیس دجال، کذاب قیامت سے پہلے نبوت کا دعویٰ کریں گے تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ ایسا نہ ہوتا۔ چنانچہ امت محمدیہ علی صاحبہا افضل الصلوٰۃ والسلام کی چودہ صد سالہ تاریخ حضورﷺ کی اس پیشین گوئی کی تصدیق کر رہی ہے۔ جھوٹے مدعیان نبوت کا سلسلہ خلافت صدیقی میں ہی شروع ہوگیا تھا اور یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا۔ یہاں تک کہ مرزاغلام احمد قادیانی آنجہانی تشریف فرماہوئے۔ ان کے دعاوی، ان کی تعلیمات، ان کے فرمودات اور ان کے طریقۂ کار کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو ان میں ہمیں کوئی جدت نظر نہیں آتی۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے سابقہ پیشروؤں کی تعلیمات اور نظریات سے پوری طرح استفادہ کیا ہے اور متفرق لوگوں سے متفرق چیزیں لے کر اپنی نبوت کی دکان سجائی ہے۔ مرزاقادیانی ختم نبوت کے قائل بھی ہیں اور ساتھ ہی اپنے آپ کو نبی بھی کہتے ہیں۔ اس تضاد کو انہوں نے یہ کہہ کر دور کیا ہے کہ حقیقی نبی تو حضورﷺ ہیں اور میں ظلی اور بروزی نبی ہوں۔ درحقیقت یہ تاویل کتنی ہی بھونڈی کیوں نہ ہو۔ بہرحال مرزاقادیانی کی ذہنی سطح سے بلند تر ہے۔ ظاہر بیّن شخص ضرور اس ندرت آفرینی پر حیران ہو جاتا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ مراد مرزاقادیانی کا سرقہ ہے۔ جو انہوں نے اپنے ایک پہلے پیشرواسحاق اخرس مغربی مدعی نبوت سے کیا ہے۔ یہ کم بخت شمالی افریقہ کارہنے والا تھا۔ اس نے تمام علوم رسمیہ کی تکمیل کی۔ مختلف زبانیں سیکھتا رہا اور قرآن کریم کے علاوہ تورات، انجیل، زبور میں مہارت تامہ حاصل کی۔ پھر اپنے وطن سے نقل مکانی کر کے بہت دور اصفہان میں آپہنچا اور ایک عربی مدرسہ میں قیام کیا اور دس سال تک گونگا بنا رہا۔ ایک رات اس نے اچانک زور زور سے چیخنا شروع کر دیا۔ مدرسہ کے تمام لوگ بیدار ہوگئے۔ جب اس کے پاس پہنچے وہ نماز میں مشغول ہوگیا اور ایسی خوش الحانی اور تجوید کے ساتھ بآواز بلند قرآن پڑھنے لگا کہ بڑے بڑے قاری بھی عش عش کر اٹھے۔ جب لوگوں کے دلوں پر اس کی دھاک بیٹھ گئی تو اس نے ایک دن اپنے نبی ہونے کا اعلان کر دیا۔ جس طریقہ سے اس نے اپنی نبوت کا اعلان کیا وہ قابل غور ہے۔ کہنے لگا۔ ’’فرشتہ نے ایک سفید سی چیز میرے منہ میں رکھ