انگریز حکومت کے دور میں تو علماء نے صرف زبانی طور پر مقابلہ کیا۔ جب ملک آزاد ہوا تو مسلمانوں کو خوشی ہوئی کہ اب تمام انگریزی یادگاریں مٹ جائیں گی اور ان یادگاروں میں مرزائیت بھی ختم ہو جائے گی۔ لیکن ملک کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آئی۔ جن کی اکثریت خود انگریز کی یادگار تھی۔ انہوں نے بھی اس پودے کو پانی دینا شروع کیا تو مسلمان پھر میدان میں اتر آئے اور ۱۹۵۳ء میں جو تحریک چلی وہ اسی غصہ کا اظہار تھا۔ اگرچہ کچھ دنوں تک مرزائیت پس پردہ چلی گئی۔ مگر اب پھر کھل کر سامنے آگئی ہے۔ ملک کے کلیدی عہدوں پر قادیانی قابض ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کے لئے ضروری ہوگیا کہ اپنی کوشش تیز کر دیں۔ قادیانی حضرات نے اپنے عہدوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علماء کرام پر پابندیاں لگوائیں اور انہیں گرفتار تک کیا گیا۔ تاہم علماء نے اپنا فرض ادا کرنا ضروری سمجھا اور ادا کر رہے ہیں۔
زیر نظر کتاب بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ ڈسکہ مرزائیت کے مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ مرزائیت کی جڑوں میں پانی یہاں ہی سے میسر آیا تھا۔ چنانچہ احقر نے مسلمانوں کے تعاون سے ایک مدرسہ بنام دارالعلوم مدینہ یہاں قائم کیا۔ جس کی قادیانیوں نے شدید مخالفت کی اور ان کو یہ خطرہ پیدا ہوا کہ اب یہاں قادیانیت کی تبلیغ میں دارالعلوم کی بنا پر دشواری پیش آئے گی۔ ان کی مخالفت کے باوجود اﷲ کے فضل وکرم سے کام جاری ہے۔ مذکورہ کتاب لکھنے کا سبب بھی قادیانیوں کی مخالفت تھی۔ کیونکہ قادیانیوں نے جھوٹے پراپیگنڈا سے حکام کو یہ تأثر دیا کہ مذکورہ ادارہ کا سربراہ امن عامہ کے لئے خطرہ کا باعث بن رہا ہے۔ لہٰذا اس کی زبان بندی ضروری ہے۔ حکام بالا (جو ہمیشہ ایسے غلط پراپیگنڈا کا شکار ہوتے رہتے ہیں) نے احقر کی دوماہ کی زبان بندی کر دی تو احقر نے بہتر سمجھا کہ ان ایام میں تعلیمی مشاغل کے علاوہ یہ چھوٹا سا رسالہ لکھ دیا جاوے۔ جس میں مرزاقادیانی کی پیش گوئیوں پر بحث کی جاوے۔ چنانچہ بعض پیشین گوئیوں پر بحث کی گئی۔ پھر مزید کچھ اور مضامین شامل کر لئے گئے۔ رسالہ کا حجم مجوزہ سے کچھ بڑھ گیا ہے۔ اسے ایک چھوٹی سی کتاب کی صورت میں آپ کے سامنے پیش کیا جارہا ہے۔ اگرچہ اس بارے میں علماء کرام نے بہترین کتابیں لکھیں ہیں۔ تاہم میں نے بھی ایک حقیر سی کوشش کر کے تبلیغ ختم نبوت میں حصہ لینے کی سعی کی ہے۔ اﷲتعالیٰ قبول فرمائے۔