M
سب ستائشیں اس اﷲ کے لئے جس نے کائنات کو وجود بخشا اور صلوٰۃ سلام اس کے آخری نبی پر جس نے حق وصداقت کا علم اس جہاں میں بلند کیا اور ان صحابہ پر جنہوں نے حق کی روشنی کو چارسوعالم میں پھیلایا۔ اما بعد! چودھویں صدی مسلمانان عالم کے لئے ایک پرآشوب صدی ثابت ہوئی۔ا س صدی میں بہت سے نئے فتنے ظاہر ہوئے۔ مسلمانان ہند کے لئے خصوصیت کے ساتھ فتنہ مرزائیت اور فتنہ انکار حدیث تباہ کن ثابت ہوئے۔ غلامی نے فکری صلاحیتوں کو جس قدر مٹایا تھا۔ اسی مقدار سے لوگ فتنوں سے متأثر ہوئے۔ پھر ان فتنوں کی پشت پناہی وقت کے اقتدار اعلیٰ نے کی۔ خصوصیت سے فتنہ مرزائیت تو تھا ہی انگریزوں کی ایجاد جس کے لئے انہوں نے اپنے نمک خوار خاندان سے ایک فرد کو چنا۔ جو ظاہری طور پر زہدواتقاء اور ہمدرد اسلام کے لبادہ میں لپٹا ہوا تھا۔ مگر درون خانہ انگریزوں کی حکومت مضبوط کرنے کے لئے انگریزوں کا تنخواہ دار ملازم تھا۔ جس طرح بارہا اس کی زبان سے انگریزوں کی مدح سرائی میں قصیدے سرزد ہوئے اور خود اس نے خود کاشتہ پودا ہونے کا اظہار کیا۔
نیز انگریزوں کی عدل گستری کے گیت گاتا رہا۔ حالانکہ سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو انگریز ہی نے پہنچایا۔ مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ انگریز ہی کے ہاتھ سے ہوا۔
نیز انگریزوں کی سلطنت مضبوط کرنے کے لئے جہاد کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا اور اس اعلان کو عوام میں مقبول بنانے کے لئے یہ دعویٰ کیا کہ میں مہدی ومسیح موعود ہوں۔ جس کے عہد میں جہاد منسوخ ہو جائے گا۔ پھر ترقی کر کے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور اپنی بیعت کے شرائط میں انگریز کی اطاعت کو ایک شرط قرار دیا۔ مسلمانان ہند نے جب اس فتنہ کو تاڑا تو مسلم علماء نے اس کا مقابلہ ہر طرح سے کیا۔ تحریر، تقریر اور مناظرات وغیرہ سے مگر مرزائیت روساء اور جاگیرداروں میں پھیلتی گئی۔ کیونکہ روساء تو تھے ہی انگریزوں کے نمک خوار لہٰذا ان کو اپنی ریاست اور نوکریاں قائم رکھنے کے لئے ایسا کرنا پڑا۔ مرزاقادیانی کے کاذب ہونے کی یہ مستحکم دلیل ہے کہ اولاً ان سے روسا نے ہی تعاون کیا اور نبوت کی تعمیر احلام سے ہوئی۔ وقت کے علماء نے واشگاف طور پر اس کی تردید کر دی اور علمی طور پر ثابت کیا کہ مرزاقادیانی نہ تو مہدی ہیں نہ مسیح موعود صرف انگریز کے نمک خوار ہیں۔