’’والحمد ﷲ وحدہ والصلوٰۃ علیٰ من لا نبی بعدہ۰ اما بعد فقد قال اﷲ تعالیٰ ہل انبئکم علیٰ من تنزل الشیطٰین تنزل علیٰ کل افاک اثیم یلقون السمع واکثرہم کاذبون (شعرائ:۱۲۱،۱۲۲)‘‘
سب سے پہلے یہ چیز ملحوظ رکھی جائے کہ الہام ووحی ایک خفیہ اشارہ کا نام ہے۔ جو بیداری اور خواب دونوں میں ہوسکتا ہے۔ پھر الہام والقاء کبھی اﷲ کی طرف سے ہوتا ہے اور کبھی شیاطین کی طرف سے۔ سچے لوگوں کو بھی الہام ہوتا ہے اور جھوٹے لوگوں کو بھی ہوتا ہے۔ پھر الہام انبیاء علیہم السلام پر جس طرح ہوتا ہے چاہے بیداری میں ہو یا خواب میں ہو۔ بہرصورت اس میں شبہ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ دیگر افراد امت کا الہام یقینی نہیں ہوتا۔ اسی لئے احکام کی بنیاد نہیں بن سکتا اور انبیاء کا الہام ہرحالت میں بنیاد ہوتا ہے۔ کیونکہ انبیاء کی بیداری اور نیند کسی حالت میں بھی الہام میں شیطانی دخل نہیں ہوسکتا۔ بخلاف دیگر افراد کے۔
اسی بنیاد پر کسی نبی کی کوئی پیش گوئی کبھی بھی غلط نہیں ہوسکتی۔ بخلاف دیگر افراد کے کبھی درست اور کبھی غلط ہوتی رہتی ہے۔ لہٰذا معیار صداقت یہ ہوگا کہ جو شخص نبوت والہام کا دعویٰ کرے تو ضروری ہے جو پیش گوئی کرے کوئی بھی غلط ثابت نہ ہو۔ اگر ہزار میں سے ایک بھی غلط ثابت ہو جائے تو وہی اس مدعی کے کاذب ہونے کے لئے کافی ہے۔ مزید دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ پیش گوئی میں غلطی بے علمی کی دلیل ہے اور جو پیش گوئی خدا کی طرف سے ہو۔ اس میں یہ احتمال نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اﷲ جل شانہ علام الغیوب ہیں نیز جو پیش گوئیاں واضح اور صریح الفاظ میں ہوں وہ کسی تاویل کی محتاج نہیں ہوتیں۔ پھر خاص کر جو پیش گوئی کلمات تاکیدہ قسم وغیرہ سے شروع ہو وہ تو کسی طرح کی تاویل قبول نہیں کر سکتی۔ یہ اصول غلام احمد نے خود تسلیم کیا ہے بلکہ اس پر زور دیا ہے۔
اب آئیے! ہم چودھویں صدی کے مدعی الہام ووحی مرزاغلام احمد قادیانی کی پیش گوئی کا تجزیہ کریں۔ کیا اس کی کوئی بھی پیش گوئی صحیح ثابت ہوئی۔
مجھے یہ کہتے ہوئے کسی طرح بھی کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ مرزاقادیانی کی پیش گوئیوں کا محرک ضرور کوئی ایسا امر ہے جو ان کے قلب ودماغ سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ وہ قوت قدسیہ نہیں بلکہ قوت واہمہ اور طاغوتیہ، شیطانیہ ہے۔ جس طرح ابتداً بحث میں آیت قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اﷲ کی طرف سے القاء ہوتا ہے۔ اسی طرح شیطان کی