حضرت ثوبان سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں تیس کذاب ہوں گے۔ جن میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
علامہ ابن کثیر متوفی ۷۷۴ھ متعدد احادیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ ’’فقد اخبراﷲ تعالیٰ فی کتابہ ورسولہﷺ فی السنۃ المتواترۃ عنہ انہ لا نبی بعدہ لیعلموا ان کل من ادعی ہذا المقام بعدہ فہو کذاب، افاک دجال، ضال مضل‘‘ یعنی اﷲتعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور رسول کریمﷺ نے سنت متواترہ میں بتایا ہے کہ حضورﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ تاکہ ساری دنیا جان لے کہ جو شخص بھی حضورﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ کذاب ہے۔ جھوٹا ہے، دجال ہے، گمراہ ہے اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہے۔
علامہ سید آلوسی متوفی ۱۲۷۰ھ روح المعانی میں لکھتے ہیں: ’’وکونہﷺ خاتم النبیین ممانطق بہ الکتاب وصرحت بہ السنۃ واجمعت علیہ الامۃ فیکفر مدعی خلافہ ویقتل ان اصر‘‘ (تفسیر روح المعانی ص۲۲،۳۹)
یعنی حضورﷺ کا خاتم النبیین ہونا ایسا عقیدہ ہے جس کی تصریح قرآن وسنت نے کی ہے۔ جس پر امت کا اجماع ہے۔ پس جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ کافر ہو جائے گا اور اگر اس نے توبہ نہ کی اور اس دعویٰ پر مصر رہا تو اس کو قتل کیا جائے گا۔
علامہ ابن حیان اندلسی متوفی ۷۴۵ھ اپنی تفسیر بحر محیط میں رقمطراز ہیں۔ ’’ومن ذہب الیٰ ان النبوۃ مکتسبۃ لا تنقطع اوالیٰ ان الولی افضل من النبی فہو زندیق یجب قتلہ وقد ادعی ناس النبوۃ فقتل ہم المسلمون علیٰ ذالک وکان فی عصرنا شخص من الفقراء ادعی النبوۃ بمدینۃ مالقہ فقتلہ السلطان بن الاحمر ملک الاندلس بغرناطۃ وصلب حتی تناسر لحمہ‘‘ یعنی جس شخص کا یہ نظریہ ہو کہ نبوت کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا اور اسے اب بھی حاصل کیا جاسکتا ہے یا جس کا یہ عقیدہ ہو کہ ولی نبی سے افضل ہوتا ہے وہ زندیق ہے اور واجب القتل ہے۔ آج تک جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا مسلمانوں نے ان کو قتل کر دیا۔ ہمارے زمانے میں بھی فقراء میں سے ایک شخص نے شہر مالقہ میں نبوت کا دعویٰ کیا تو اندلس کے بادشاہ نے غرناطہ میں اس کا سرقلم کر دیا اور اس کی لاش کو سولی پر چڑھادیا اور وہ اسی حالت میں لٹکا رہا۔ یہاں تک کہ اس کا گوشت گل کر گر پڑا۔