مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین وجمیل بنائی۔ مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹی ہوئی ہے۔ لوگ اس عمارت کے اردگرد پھرتے اور اس کی خوبصورتی پر حیران ہوتے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی تو وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔
اگر آپ اس حدیث میں غور کریں گے تو بلاغت نبوی کے اعجاز کا آپ کو اعتراف کرنا پڑے گا۔ جب ایک عمارت مکمل ہو جاتی ہے اور اس میں کوئی خالی جگہ نہیں رہتی تو کوئی ماہر سے ماہر انجینئر بھی اس میں ایک اینٹ کا اضافہ نہیں کر سکتا۔ ہاں اس کی ایک ہی صورت ہے کہ پہلی اینٹوں میں سے کوئی اینٹ توڑ کر وہاں سے نکال لی جائے اور پھر اس خالی کرائی ہوئی جگہ پر کوئی نئی اینٹ لگادی جائے۔ حضور کریمﷺ کی تشریف آوری سے قصر نبوت مکمل ہوگیا اب اس میں کسی اور نبی کی گنجائش نہیں۔ بجز اس کے کہ سابقہ انبیاء میں سے کسی نبی کو وہاں سے نکالا جائے اور مرزاغلام احمد قادیانی کے لئے جگہ بنائی جائے کیا کوئی عقل سلیم اس کو گوارہ کرے گا۔ قصر نبوت کی اس توڑ پھوڑ کو کیا اﷲتعالیٰ کی غیرت برداشت کرے گی؟ ہرگز نہیں۔ یہ ایک حدیث ہی اتنی جامع اور اتنی معنی خیز اور اتنی بصیرت افروز ہے کہ ختم نبوت کے لئے مزید کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اس حدیث کو امام بخاریؒ کے علاوہ امام مسلمؒ نے کتاب الفضائل باب خاتم النبیین میں اور امام ترمذیؒ نے کتاب المناقب اور ابوداؤد طیالسی نے اپنی مسند میں مختلف اسناد سے نقل کیا ہے۔۲… ’’ان رسول اﷲﷺ قال فضلت علی الانبیاء بست اعطیت جوامع الکلم ونصرت بالرعب واحلت لی الغنائم وجعلت لی الارض مسجداً وطہوراً وارسلت الی الخلق کافۃ وختم بی النبییون‘‘
(مسلم ج۱ ص۱۹۹، ترمذی، ابن ماجہ)
رسول کریمﷺ نے فرمایا۔ مجھے چھ باتوں میں انبیاء پر فضیلت دی گئی۔ مجھے جوامع الکلم سے نوازا گیا۔ یعنی الفاظ مختصر اور معانی کا بحربے پیدا کنار۔ رعب کے ذریعے میری مدد فرمائی گئی۔ میرے لئے غنیمت کا مال حلال کیاگیا۔ میرے لئے ساری زمین کو مسجد بنادیا گیا اور اس سے تیمم کی اجازت دی گئی۔ مجھے تمام مخلوق کے لئے رسول بنایا گیا۔ میری ذات سے انبیاء کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔
۳… حضرت انس ابن مالکؓ سے مروی ہے: ’’قال رسول اﷲﷺ ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی‘‘ (ترمذی ج۲ ص۵۳)