بیان کیا ہے (آخری) وہ یہاں مراد نہیںبلکہ اس کا دوسرا معنی مراد ہے اور یہ معنی بھی ان لغت کی کتابوں میں موجود ہے۔ جن کا حوالہ آپ نے دیا ہے۔ جب ایک لفظ کے دو معنی ہوں تو وہاں ایک معنی مراد لینے پر بضد ہونا اور دوسرے معنی کو ترک کر دینا تحقیق حق کا کوئی اچھا مظاہرہ نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم بھی اس آیت کو مانتے ہیں اور اس کے معنی اپنی طرف سے نہیں گھڑتے۔ تاکہ ہم پر تحریف قرآن کا الزام نہ لگایا جائے۔ بلکہ لغت عرب کے مطابق ہی اس کا مفہوم بیان کرتے ہیں۔ کسی کو ہم پر اعتراض کا حق نہیں پہنچتا۔
صحاح اور لسان العرب دونوں میں خاتم کا معنی مہر یا مہر لگانے والا مذکور ہے۔ آیت کا یہی معنی ابلغ اور شان رسالت کے شایان ہے کہ حضورﷺ انبیاء پر مہر لگانے والے ہیں۔ جس پر حضورﷺ نے مہر لگادی وہ نبوت کے شرف سے مشرف ہوگا اور جس پر مہر نہ لگائی۔ وہ نبوت کے منصب پر فائز نہیں ہوسکتا۔
جواب
اس کے متعلق گزارش ہے کہ بیشک لغت کی کتابوں میں خاتم کا معنی مہر یا مہر لگانے والا مرقوم ہے۔ لیکن انہوں نے تصریح کر دی ہے کہ مذکورہ آیت میں خاتم النبیین کا معنی آخر النبیین ہے۔ یہاں فقط یہی معنی مراد ہے اور یہ لوگ اگر مصر ہوں کہ یہاں خاتم کا دوسرا معنی مراد ہے تو اس سے بھی انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے مطالعہ کرتے ہوئے غور وتدبر سے کام نہیں لیا۔ انہوں نے مہر سے مراد ڈاکخانہ کی مہر یا کسی افسر کی مہر سمجھی ہے کہ لفافہ یا کارڈ پر مہر ٹھپہ لگایا اور اسے آگے بھیج دیا، یا کسی کی درخواست پر اپنی مہر ثبت کی اور اسے مناسب کاروائی کے لئے متعلقہ دفتر روانہ کر دیا۔ حالانکہ مہر کا جو مفہوم اہل لغت نے لیا ہے وہ قطعاً اس کے خلاف ہے۔ کاش انہیں بے جا تعصب اس امر کی اجازت دیتا ہے کہ وہ ائمہ لغت کی عبارتوں میں غور کرتے۔
آئیے! ہم آپ کی خدمت میں یہ عبارتیں پیش کرتے ہیں تاکہ آپ کسی صحیح فیصلہ پر پہنچ سکیں۔ لسان العرب میں ہے۔ ’’ختمہ، یختمہ ختماً وختاماً۰ طبعہ فہو مختوم ومختم شدد للمبالغۃ‘‘ یعنی ختم کا معنی مہر لگانا ہے اور جس پر مہر لگادی جائے اس کو مختوم اور مبالغہ کے طور پر مختم کہتے ہیں۔
اس کے بعد لکھتے ہیں۔ ’’ومعنی ختم وطبع فی اللغۃ واحد ہو التغطیۃ علی الشیٔ والاستیثاق عن ان لا یدخلہ شیٔ کما قال جل وعلا ام علیٰ قلوب