ابوالفضل جمال الدین محمد بن مکرم بن منظور الافریقی المصری کا سن ولادت ۶۳۰ھ اور سال وفات ۷۱۱ھ ہے۔ یہ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ (موجودہ) فتنہ انکار ختم نبوت سے صدہا سال پہلے یہ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے مذہبی تعصب یاذاتی عقیدہ کے باعث لکھا ہے۔ تاکہ ان کا قول حجت نہ رہے۔ بلکہ ان کی نگارشات اور ان کی تحقیقات اہل لغت کے اقوال کے عین مطابق ہیں۔ پہلے صحاح کی عبارت ملاحظہ فرمائیے۔
’’ختم اﷲ لہ بخیرا‘‘ خدا اس کا خاتمہ بالخیر کرے۔ ’’وختمت القراٰن بلغت آخرہ‘‘ یعنی میں نے قرآن مجید آخر تک پڑھ لیا۔ ’’اختتمت الشی نقیض افتتحتہ‘‘ افتتاح کی نقیض اختتام ہے۔ ’’والخاتم والخاتم والختام والخاتام کلہ بمعنی واحد وخاتمۃ الشیٔ آخرہ‘‘ یعنی خاتم خاتم ختام خاتام سب کا ایک ہی معنی ہے اور کسی چیز کے آخر کو خاتمۃ الشیٔ کہتے ہیں۔ ومحمدﷺ خاتم الانبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام۔ حضورﷺ تمام نبیوں سے آخر میں تشریف لے آئے۔
علامہ ابن المنظور لسان العرب میں لکھتے ہیں۔ ختام الوادی، اقصاہ، وختام القوم وخاتمہم وخاتمہم آخرہم ومحمدﷺ خاتم الانبیاء علیہ وعلیہم الصلوٰۃ والسلام۔ وادی کے آخری کونہ کو ختام الوادی کہتے ہیں۔ قوم کے آخری فرد کو ختام، خاتم اور خاتم کہا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے نبی پاکﷺ کو خاتم الانبیاء کہاگیا ہے۔ لسان العرب میں التہذیب کے حوالے سے لکھا ہے۔ الخاتم والخاتم من اسماء النبیﷺ وفی التنزیل العزیز ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین ای آخرہم ومن اسمائہ العاقب ایضاً ومعناہ آخر الانبیاء یعنی خاتم اور خاتم نبی کریمﷺ کے اسماء میں سے ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔ ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘ یعنی سب نبیوں سے پیچھے آنے والا اور حضورﷺ کے اسماء میں سے العاقب بھی ہے۔ اس کا معنی آخرالانبیاء ہے۔
اہل لغت کی ان تصریحات سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ خاتم کی تاء پر زیر ہویا زبر اس کا معنی ’’آخری‘‘ ہے۔ اس معنی کی تائید کے لئے اہل لغت نے ایک دوسری آیت سے بھی استدلال کیا ہے۔ ’’وختامہ مسک ای آخرہ مسک‘‘ یعنی اہل جنت کو جو مشروب پلایا جائے گا اس کے آخر میں انہیں کستوری کی خوشبو آئے گی۔
قادیانی اعتراض
ختم نبوت کے منکرین اس موقع پر یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ خاتم کا جو معنی آپ نے