۔ لیکن مرزاقادیانی نے وہ کام کردکھایا جس کی جرأت آج تک شیطان کو بھی نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس مسئلہ پر شرح وبسط سے لکھا جائے تاکہ حضورﷺ کا امتی کسی غلط فہمی کے باعث اپنے آقائے کریم سے کٹ کر نہ رہ جائے۔ رہے وہ لوگ جو شکم کو ایمان پر ترجیح دیتے ہیں اور مال ودولت کے حصول کی خاطر دین بدلنے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ بلکہ اسے کمال ہوشمندی سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا علاج کسی کے پاس نہیں۔ ہمیں ان کے لئے ملول نہیں ہونا چاہئے۔ نہ ایسے ابن الوقتوں کی خدا کو ضرورت ہے اور نہ اس کے رسول کو۔
ہمارا دعویٰ بلکہ غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے۔ ’’حضور سرور عالم سیدنا محمد رسول اﷲﷺ سب سے آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ حضورﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے۔ جو اسلام نے مرتد کے لئے مقرر فرمائی ہے۔‘‘ اس عقیدہ کو ثابت کرنے کے لئے ہم ایسے دلائل پیش کریں گے جو قطعی اور یقینی ہیں اور جن میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ سب سے پہلے ہم قرآن کریم سے استدلال کرتے ہیں۔ ارشاد خداوندی ہے: ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولٰکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شیٔ علیما (الاحزاب:۴۰)‘‘
اس آیت میں اﷲتعالیٰ نے اپنے محبوب مکرمﷺ کا اسم گرامی لے کر فرمایا ہے کہ محمدﷺ اﷲتعالیٰ کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں۔ یعنی انبیاء کے سلسلہ کو ختم کرنے والے ہیں۔ جب مولا کریم جو بکل شیٔ علیم ہے۔ نے یہ فرمایا کہ محمدﷺ مصطفیٰ نبیوں کو ختم کرنے والے آخری نبی ہیں تو حضورﷺ کے بعد جس نے کسی کو نبی مانا اس نے اﷲتعالیٰ کے اس ارشاد کی تکذیب کی اور جو شخص اﷲتعالیٰ کے کسی ارشاد کو جھٹلاتا ہے وہ مسلمان نہیں رہ سکتا۔
خاتم النبیین کا جو معنی یہاں کیاگیا ہے۔ اہل لغت نے اس کا یہی معنی لکھا ہے۔ اس وقت میرے پاس علم لغت کی دوسری کتب کے علاوہ الصحاح للجوہری اور لسان العرب لابن منظور موجود ہیں۔ جن کا شمار لغت عرب کی امہات الکتب میں ہوتا ہے۔ آؤ! ان کے مطالعہ سے اس لفظ کی تحقیق کریں۔ ایک چیز پیش نظر رہے کہ صحاح کے مؤلف علامہ حماد بن اسماعیل الجوہری کا سن ولادت ۳۳۲ہجری اور سال وفات ۳۹۳ھ یا ۳۹۸ھ ہے اور لسان العرب کے مؤلف علامہ