انگریز کی غلامی کے دور میں ملت اسلامیہ کو جس طرح کئی مصائب سے دوچار ہونا پڑا۔ اسی طرح ایک جھوٹی نبوت قائم کر کے امت میں انتشار پیدا کیاگیا۔ وہ مدعی نبوت بظاہر عیسائیت کا رد کرتا تھا اور پادریوں سے مناظرے کرتا تھا۔ اس کے باوجود وہ انگریز کا پرلے درجے کا وفادار تھا۔ ملکۂ انگلستان کی شان میں اس نے ایسے تعریفی پمفلٹ لکھے کہ کوئی باغیرت مسلمان ان کو پڑھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ انگریز کی اسلام دشمنی اظہر من الشمس ہے۔ جنہوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کا تختہ الٹا۔ سلطنت عثمانیہ کو پارہ پارہ کردیا۔ ایسی ظالم اور اسلام دشمن حکومت کو اپنی وفاداری کا یقین دلانا اسلام سے غداری نہیں تو اور کیا ہے؟ انگریز نے اس کی نبوت کو اپنی سنگینیوں کے سایہ میں پروان چڑھنے کا موقع دیا اور اس کو قبول کرنے والوں کے لئے بے جانوازشات کے دروازے کھول دئیے۔ ہر مرزائی کے لئے کسی استحقاق کے بغیر اچھی سے اچھی ملازمتیں مختص کر دی گئیں۔ سیاسی میدان میں بھی ان کو آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی۔ بے شک وہ شخص عیسائیت کے خلاف لکھتا اور بولتا تھا۔ لیکن انگریز نے اس کے ذریعہ امت مسلمہ میں ایک نئی امت پیدا کر کے اور ان کے متفقہ بنیادی عقیدۂ میں تشکیک پیدا کر کے جو مقصد عظیم حاصل کیا وہ بہت بڑا کارنامہ تھا اور اپنے دوررس نتائج کے اعتبار سے بڑا اہم تھا۔ اگر ایسا شخص عیسائیت کے خلاف کچھ بولتا ہے تو بولا کرے۔ اس سے انگریزی سیاست کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ بلکہ عیسائیوں کی مخالفت ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے وہ انگریزی استعمار کی خدمت پوری دل جمعی کے ساتھ کر سکتا تھا۔ اگر وہ عیسائیوں کے خلاف کچھ نہ کرتا تو اس کی بات کوئی آدمی سننے کے لئے تیار نہ تھا۔
مرزاغلام احمد قادیانی کی نبوت کا پیغام لے کر جب مرزائی مبلغ اسلامی ممالک میں گئے۔ وہاں ان کا جو حشر ہوا وہ کسی سے مخفی نہیں۔ کئی ممالک میں تو انہیں مرتد قرار دے دیا گیا۔ عالم اسلام کے تمام علماء نے بالاتفاق اس مدعی نبوت کو مرتد اور خارج از اسلام قرار دیا۔
یہ عرض کرنے کا مقصد صرف اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ ختم نبوت کا عقیدہ ان بنیادی عقیدوں میں سے ایک ہے۔ جن پر گونا گوں اختلافات کے باوجود سترہ صدیوں تک امت کا کلی اتفاق اور قطعی اجماع رہا ہے۔ جس طرح ایک مسلمان کے لئے اﷲتعالیٰ کی توحید، قیامت، حضورﷺ کی رسالت کسی دلیل کی محتاج نہیں۔ اسی طرح ختم نبوت کا مسئلہ بھی کبھی زیربحث نہیں آیا اور اس کے ثبوت کے لئے کسی مسلمان کو کسی دلیل یا بحث وتمحیص کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔