ختم نبوت کا عقیدہ اسلام کے ان چند بنیادی عقیدوں میں سے ایک ہے جن پر امت کا اجماع رہا ہے۔ اگرچہ بدقسمتی سے امت اسلامیہ کئی فرقوں میں بٹ گئی ہے۔ باہم تعصب نے بارہا ملت کے امن وسکون کو درہم برہم کیا اور فتنہ وفساد کے شعلوں نے بڑے المناک حادثات کو جنم دیا۔ لیکن اتنے شدید اختلافات کے باوجود سارے فرقے اس پر متفق رہے کہ حضورﷺ آخری نبی ہیں اور حضورﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ چنانچہ گذشتہ تیرہ صدیوں سے جس نے بھی نبی بننے کا دعویٰ کیا اس کو مرتد قرار دے دیا گیا اور اس کے خلاف علم جہاد بلند کر کے اس کی جھوٹی عظمت کو خاک میں ملادیا۔ مسیلمہ نے جب نبوت کا دعویٰ کیا تو حضرت صدیق اکبرؓ نے نتائج کی پرواہ کئے بغیر اس کے خلاف لشکر کشی کی اور تب چین کا سانس لیا جب اس جھوٹے نبی کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ بیشک اس جہاد میں کافی مسلمان بھی شہید ہوئے۔ جن میں سینکڑوں حفاظ کرام اور عظیم المرتبت صحابہؓ بھی تھے۔ لیکن حضرت صدیق اکبرؓ نے اتنی قربانی دے کر بھی اس فتنے کو کچلنا ضروری سمجھا۔ آپ نور صدیقیت سے دیکھ رہے تھے کہ اگر ذرا تساہل برتا تو یہ امت سینکڑوں گروہوں میں نہیں سینکڑوں امتوں میں بٹ جائے گی۔ ہر امت کا اپنا نبی ہوگا اور وہ اسی کی شریعت اور سنت کو اپنائے گی۔ اس طرح رحمت للعالمینﷺ کے زیرسایہ اسلام کے پلیٹ فارم پر انسانیت کے اتحاد کی ساری امیدیں ختم ہو جائیں گی اور ’’انی رسول اﷲ الیکم جمیعاً‘‘ کا سہانا منظر کبھی بھی نظر نہیں آئے گا۔
ناظرین! کو یہ بھی مدنظر رکھنا چاہئے۔ مسیلمہ حضورﷺ کی نبوت کا منکر نہیں تھا۔ بلکہ اپنے دعویٰ نبوت کے ساتھ ساتھ وہ حضورﷺ کی رسالت کو بھی تسلیم کرتا تھا۔ چنانچہ حضور خاتم الانبیاء والرسلﷺ کی ظاہری زندگی کے آخری ایام میں اس نے جو عریضہ ارسال خدمت کیا تھا۔ اس کے الفاظ یہ ہیں۔ ’’من مسیلمۃ رسول اﷲ الیٰ محمد رسول اﷲ‘‘ کہ یہ خط مسیلمہ کی طرف سے جو اﷲتعالیٰ کا رسول ہے، محمد رسول اﷲ کی طرف لکھا جارہا ہے۔
علامہ طبری نے اس امر کی بھی تصریح کی ہے کہ اس کے ہاں جو اذان مروج تھی۔ اس میں ’’اشہد ان محمد رسول اﷲ‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ بایں ہمہ حضرت صدیق اکبرؓ نے اس کو مرتد اور واجب القتل یقین کر کے اس پر لشکر کشی کی اور اس کو واصل بجہنم کر کے آرام کا سانس لیا۔
اسلام کی تیرہ صدسالہ تاریخ میں جب بھی کسی سر پھرے طالع آزمایا فتنہ پردازنے اپنے آپ کو نبی کہنے کی جرأت کی اس کو قتل کردیا گیا۔