’’اخرجوا الیہود والنصاریٰ من جزیرۃ العرب (بخاری ومسلم)‘‘ کہ یہود اور نصاریٰ کو جزیرۂ عرب سے نکال دو۔ اس وجہ سے فاروق اعظمؓ نے ان لوگوں کو دوسری مرتبہ جلاوطنی کا حکم دیا اور شام کے علاقہ کی طرف ان سب کو جلاوطن کر دیا گیا۔
اقلیتی فرقہ کی سازشی روش اور تخریبی کاروائیوں کے باعث یہ فیصلہ صرف قرآن کریم ہی کا نہیں بلکہ برطانیہ کے قدیم زمانے کے قوانین میں تو اسی طرح کی نظریں ملتی ہیں کہ ایسے گروہ کو اس طرح کی کوئی آزادی نہیں دی گئی کہ وہ خود اپنی مذہبی وثقافتی روایات ہی کو نمایاں کر سکیں۔ حالانکہ ان کے اس طرح کی باتوں میں برطانیہ کے عیسائی کسی درجہ میں بھی من حیث المذہب متأثر نہیں ہوتے تھے۔ مثلاً ۱۱۹۰ء میں ایڈورڈ اوّل نے ایک شاہی فرمان کے ذریعے یہودیوں کو ملک بدر کردینے کی تاکید کی اور ان کی جلاوطنی ایک قانون کی شکل میں جاری کی گئی۔
یہودیوں کی مذہبی آزادی کے سلسلہ میں برطانیہ میں ۱۲۷۱ء میں ایک قانون نافذ کیاگیا۔ جس کی رو سے ہنری ثالث نے یہودیوں کو زمین خریدنے کی اجازت نہیں دی تھی اور نہ ہی ان کو اس کی اجازت تھی کہ وہ عیسائیوں کو نوکر بناکر رکھیں اور یہ حکم جاری کیاگیا کہ یہودی اپنے لباس کے ساتھ ایک پیلا بیج استعمال کیا کریں۔ جو ان کے واسطے ایک امتیازی نشان ہو اور سالانہ ٹیکس بھی ان پر تھا۔ جو وکٹوریہ کے زمانہ تک رہا اور ۱۸۴۶ء میں اسے منسوخ کیاگیا۔ ۱۸۵۴ء تک یہودیوں کو قانونی تحفظ حاصل نہ تھا۔ حتیٰ کہ یہودی کے اپنے مذہبی اداروں کے لئے وصیت کے باوجود یہ درست تھا کہ وہ وصیت کردہ سرمایہ عیسائی مذہبی اداروں میں استعمال کر لیا جائے۔ یہودیوں کے مذہبی اداروں کا رجسٹریشن کا ۱۸۵۵ء میں قانون نافذ ہوا۔ اگر موازنہ کیا جائے تو اس زمانے کے برطانیہ میں بسنے والے یہودی ہمارے ملک میں بسنے والے قادیانیوں سے کم خطرناک تھے۔ لیکن اس کے باوجود ان پر قسم قسم کی پابندیاں عائد تھیں۔ ہمارا مدعا یہ نہیں کہ بالکل اسی درجہ میں اسی وقت ان کو قرار دلایا جائے۔ اگر وہ غیرمسلم اقلیت کے فیصلہ کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت کے آرڈیننس کا احترام کریں تو ان کو اقلیتوں کے حقوق پاکستان میں حاصل ہوسکتے ہیں۔ لیکن اگر اس کے برعکس اس فیصلہ کا مقابلہ اور اس کی مخالفت کرتے ہیں تو پھر اصولاً ان کو پاکستان کی دی ہوئی مراعات میں کسی چیز کا حق نہ ہوگا اور حکومت کو پھر وہی کرنا چاہئے جو فاروق اعظمؓ نے یہودیوں کے لئے فیصلہ فرمایا تھا۔ اب یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے بارے میں اسلام کا لفظ اختیار کریں اور نہ ہی اصولاً اس بات کا حق ہے کہ اپنی عبادت گاہیں مسجد کی ہیئت پر بنائیں۔ حکومت پر بھی یہ فرض عائد ہے کہ اگر قادیانی اپنے آپ کو مسلمان کہیں تو ان پر قانونی چارہ جوئی کرے۔ کیا کسی