قادیانیوں نے قرآنی علوم ومضامین اور شریعت اسلام کے اصول ہی اس طرح مسخ کئے کہ اصل اسلام ہی کی کوئی حقیقت باقی نہ رہی۔ چنانچہ ملاحظہ فرمائیں۔
حضرات! ان تمام حقائق اور دلائل سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ پاکستان میں مرزائی اور قادیانی جماعت بالکل ان یہودیوں کی طرح ہے جو مدینہ منورہ اور مدینہ منورہ کے قرب وجوار میں تھے۔ ان کے بارہ میں قرآن کریم نے کن احکام وہدایات سے اپنے پیغمبرﷺ کو مامور فرمایا؟ اس بارے میں پوری سورۂ حشر نازل فرمائی گئی۔ جس میں اﷲ کی پاکی اور حمد وثناء کے بعد اسی حکم سے ابتداء فرمائی گئی۔
’’ھو الذی اخرج الذین کفروا من اہل الکتاب من دیارہم لاوّل الحشر(حشر:۶)‘‘ وہی پروردگار ہے جس نے نکالا ان اہل کتاب میں سے منکروں کو ان کے گھروں سے پہلے ہی مرتبہ کی جلاوطنی کے لئے۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اپنے فوائد قرآن میں فرماتے ہیں۔ مدینہ منورہ سے چند میل کی مسافت پر ایک قوم یہود بستی تھی۔ جس کو بنی نضیر کہتے تھے۔ ان لوگوں کی قوت وشوکت کی حد تھی۔ مضبوط قلعے تھے۔ جن پر ان کو ناز تھا۔ آنحضرتﷺ کی مدینہ منورہ تشریف آوری پر پہلے انہوں نے آپﷺ سے صلح کا معاہدہ کرلیا تھا کہ ہم آپﷺ کے مقابلہ میں کسی کی مدد نہ کریں گے۔ مگر درپردہ وہ کفار مکہ سے ساز باز کرتے رہے۔ حتیٰ کہ ان کے ایک بڑے سردار کعب بن الاشرف نے چالیس سواروں کے ہمراہ مکہ مکرمہ جاکر بیت اﷲ کے سامنے قریش سے عہد وپیمان باندھا جب اس کی سازش بڑھتی رہی تو ایک صحابی محمد بن مسلمہؓ نے آنحضرتﷺ سے اجازت لے کر اس خبیث کا کام تمام کیا۔ پھر دوسری جماعت یہود جو بنو نضیر کہلاتی تھی۔ ان کی طرف سے سلسلہ غدر اور سازشوں کا جاری رہا۔ حتیٰ کہ انہوں نے ایک دفعہ دھوکہ سے آنحضرتﷺ کو اپنے یہاں بلاکر یہ چاہا کہ اوپر سے پتھر آپﷺ کے سر مبارک پر پھینک کر نصیب دشمن ہلاک کر دیا جائے۔ اﷲتعالیٰ کی وحی نے عین اس وقت آگاہ کر دیا اور خفیہ طور پر دو آدمی بھیج دئیے کہ اوپر سے جاکر پتھر گرا دئیے جائیں تو اس کے بعد آپﷺ نے مسلمانوں کا لشکر ان پر حملہ کرنے کے لئے روانہ فرمایا اور ان کا محاصرہ کر لیا گیا۔ جب یہودی گھبرا گئے تو مجبوراً صلح کی التجاء کی۔ آپ نے مصالحت تو قبول فرمالی۔ مگر حکم دیا کہ مدینہ منورہ خالی کر دو۔ چنانچہ ان کو خیبر کی طرف جلاوطن کر دیا گیا۔ مگر یہ پہلی مرتبہ کی جلاوطنی تھی۔ جو اﷲ نے پہلے ہی ظاہر کر دی تھی۔ آنحضرتﷺ نے مرض الوفات میں وصیت فرمائی۔