کے یوم ولادت کے سلسلہ میں کوئی ادنیٰ تقریب یا کم از کم قومی جھنڈا لہرانے کی رسم تھی وہ بھی نہیں کی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ مرزائیوں کے دل میں قائداعظم یا ان کے پاکستان کے لئے کوئی احترام اور جگہ نہیں ہے۔
چوہدری ظفر اﷲ کو قائداعظم نے وزارت خارجہ عطاء کی تھی۔ لیکن اس نمک حرام نے اپنے اس محسن کی وفات کے بعد ان کی نماز جنازہ نہ پڑھی۔ موقعہ پر موجود ہوتے ہوئے غیرمسلم سفیروں اور دوسرے لوگوں میں بیٹھا رہا۔ لیکن نماز میں شرکت نہ کی اور دریافت کرنے پر کہا کہ میں تو کافر حکومت کا ایک مسلمان وزیر ہوں۔ اس لئے میں ایک کافر کے جنازے میں کیسے شریک ہوتا۔ جب اس پر ملک میں لے دے شروع ہوئی تو مرزائیوں نے لکھا کہ اگر چوہدری ظفراﷲ خاں قائداعظم کے جنازے میں شریک نہیں ہوئے تو اس میں تعجب کی کون سی بات ہے۔ حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے بھی تو ابوطالب کا جنازہ نہیں پڑھا تھا۔ مقصد یہ ہے کہ ابوطالب اسلام نہ لائے تھے۔ اس لئے حضور نے انہیں غیرمسلم سمجھتے ہوئے ان کی نماز جنازہ نہ پڑھی تھی۔ قائداعظم بھی چونکہ ظفر اﷲ خاں کے نزدیک کافر تھے۔ اس لئے انہوں نے ان کے جنازے کی نماز میں شرکت نہیں کی۔
تعجب ہے کہ مرزائی قائداعظم کے جنازے کے سلسلہ میں بھی اور دوسری کئی جگہ پر مسلمانوں اور اپنے میں کفر واسلام کا فرق قرار دیتے ہیں۔ لیکن جب پوری دنیائے اسلام نے راطبہ عالم اسلام میں یہ فیصلہ کیا کہ مرزائیوں کا مذہب مسلمانوں سے جدا ہے۔ وہ ہمارے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور دنیائے اسلام کے منتخب علمائے کرام اور مفتیان عظام کے اسی فتویٰ اور فیصلہ کے مطابق پاکستان کی قومی اسمبلی نے مرزائیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قرار دے دیا تو مرزائی سیخ پا ہیں اور سخت ناراض ہیں۔ مسلمانوں کو تباہ وبرباد کرنے پاکستان کو ختم کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ یہاں تک کہ دنیا کی سب سے زیادہ دشمن اسلام طاقت اسرائیل کے ایجنٹ بن گئے ہیں۔ اس کی فوجوں میں بھرتی ہورہے ہیں۔ پاکستان اور دنیائے اسلام سے فراہم کردہ راز یہودیوں کو دے رہے ہیں۔ وہ مٹھی بھر ہوتے ہوئے اپنے کافرانہ مرتدانہ عقائد ونظریات کے ہوتے ہوئے اپنے آپ کو مسلمان اور ناجی اور کل دنیا کے مسلمانوں کو کافر، حرامزادے، کنجریوں کی اولاد کہیں تو یہ عقل اور سلامتی کی بات ہے؟ اور اگر پوری دنیائے اسلام ان کے کافرانہ اور مرتدانہ عقائد کی روشنی میں انہیں کافر اور مرتد کہے تو یہ ظلم اور بے عقلی کی بات ہے؟
بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبیت