خواہ اسرائیل میں وہ سب کے سب مرزاناصر احمد کے وفادار ہیں اور ہر جگہ انہی کی ہدایات کے تحت کام کر رہے ہیں۔ اگر اس خوفناک اقدام کے بعد بھی حکومت مرزائیوں سے کوئی ایکشن نہیں لیتی تو عوام بے شمار شکوک وشبہات میں مبتلا ہوجانے میں حق بجانب ہوں گے اور کوئی شخص پھر اس طرح بھی سوچ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ ہماری وزارت خارجہ کے علم اور مرضی کے مطابق ہورہا ہے۔
ربوہ میں بھارتی جاسوس
ایک دفعہ ربوہ کے سالانہ جلسہ کے موقعہ پر چند غیرملکی لوگ دنیا کو دھوکہ دینے کے لئے لائے گئے تھے۔ ان غیر ملکی لوگوں میں ۱۵؍مرزائی بھارت سے بھی آئے ہوئے تھے۔ جلسہ ختم ہو جانے کے بعد ربوہ میں کچھ مخصوص مشاورتیں ہوئیں۔ جتنے مرزائی وکیل آئے ہوئے تھے۔ انہیں جمع کر کے ان کی ایک الگ مشاورت ہوئی۔ اسی طرح اگلے روز تمام ضلعی امیروں کا اجلاس ہوا۔ پھر صوبائی امیروں کا اجلاس ہوا۔ اس کے بعد ۳۰؍دسمبر کو بھارتی اور صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان کے مرزائیوں کے اجلاس ہوئے۔ اس کے بعد تمام باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کو اجازت دے دی گئی۔ لیکن بھارت، صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان کے مندوبین کو چند دنوں کے لئے روک لیا گیا ہے اور ان سے خفیہ مشاورتیں ہورہی ہیں۔
ہماری شروع ہی سے رائے ہے کہ مرزائی ایک سازشی ٹولہ ہے۔ یہ لوگ اسلام دشمن طاقتوں کے ایجنٹ ہیں۔ پاکستان کے مخالف اور اسے کسی نہ کسی طرح توڑنا ان کا مذہبی عقیدہ اور جماعتی فرض ہے۔ اس وقت یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی میں اس حد تک چلے گئے ہیں کہ اسرائیل کی فوجوں میں بھرتی ہوکر دنیائے عرب اور دنیائے اسلام کی بربادی میں عملاً حصہ لے رہے ہیں۔
مرزاناصر احمد گزشتہ دنوں علاج کے بہانے لندن اور یورپ کا دورہ کر آئے ہیں۔ ہماری اطلاعات کے مطابق وہ وہاں بھارت، برطانیہ، امریکہ اور اسرائیل کی انٹیلی جنس کے افسروں سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان ملاقاتوں میں پاکستان اور دنیائے اسلام کی بربادی کے منصوبے ہی زیربحث آئے ہوںگے۔ ایسے حالات میں حکومت کی سادگی ہے کہ اس نے بھارت کے ان ۱۵مرزائیوں کو جو یقینا بھارت کی انٹیلی جنس کے آدمی ہیں۔ پاکستان میں داخل ہونے دیا ہے اور وہ امتیازی طورپر ٹھہرائے گئے۔ ادھر بلوچستان اور سرحد جو سی۔آئی۔اے کی سازشوں کی زد میں ہیں ان کے نمائندوں سے مشورے ہورہے ہیں۔