لیکن کچھ بھی نہ ہوا الٹا ذوالفقار علی بھٹو ہی وزارت خارجہ سے بوریا باندھ کر حکومت سے باہر آگئے۔ بلکہ صدر ایوب خان کے اردگرد مرزائیوں کا گھیرا اور مضبوط ہوگیا۔ ایم۔ایم احمد ، این۔اے فاروقی اور سائیںمسٹر عبدالسلام اور دوسرے چھپے ہوئے قادیانی حکومت پر خوب چھا گئے۔
مرزائیوں کا مشن بدستور اسرائیل میں قائم رہا اور آج تک قائم ہے مرزائیوں سے کسی نے دریافت نہیں کیا کہ تم لوگ وہاں کیسے آتے جاتے ہو۔ تمہیں وہاں اخراجات کیسے ملتے ہیں اور تم یہ عرب دشمنی اور اسلام دشمنی کا کھلم کھلا ارتکاب کیوں کر رہے ہو۔
اب مولانا ظفر احمد انصاری نے نیا انکشاف کر دیا ہے اور وہ بھی یہودی پروفیسر کی کتاب کے حوالے سے کیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اگر ۱۹۷۲ء میں چھ سو قادیانی تھے تو اب ان کی تعداد یقینا ہزاروں تک پہنچ چکی ہوگی اور یہ اسرائیل کی فوج میں بھرتی ہونے والے لوگ ظاہر ہے پاکستان کی فوج سے نکل کر وہاں گئے ہوں گے۔ ہمارے فوجی رازیہودیوں کے قبضہ میں یقینا چلے گئے ہوں گے۔ اس سے بڑی غداری اور اسلام دشمنی مرزائیوں کو اور کیا ہوسکتی ہے کہ یہ نہ صرف یہودیوں کے لئے اسلامی ممالک خصوصاً عرب ممالک میں جاسوسی کے فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں اور اب بھی دے رہے ہیں۔ بلکہ ان کی فوج میں شامل ہوکر عربوں کو برباد کرنے اور انہیں یہودیوں کا غلام بنانے میں شریک ہیں۔
دنیائے عرب اسلام کا منبع اور مصدر ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے بے حد قابل احترام ہے۔ لیکن اب تو ہم عربوں کے اس لئے بھی ممنون اور احسان مند ہیں کہ ان کی طرف سے ہمیں ہر نازک موقعہ پر ہر طرح کا تعاون ملا ہے اور اب بھی وہ ہماری بے پناہ مالی امداد کر رہے ہیں۔ ہمارے لئے یہ معمہ ناقابل فہم ہے کہ اس قیامت خیز انکشاف کے بعد بھی ہماری حکومت مرزائیوں کے خلاف کوئی ایکشن لینے کے لئے تیار نہیں ہوگی۔ مرزائی جو اسلام ملک اور موجودہ حکومت تینوں کے مسلمہ اور مصدقہ دشمن ہیں۔ ان کی عرب دشمنی کا زندہ ثبوت سامنے ہے۔ ان کے متعلق اس کی غیرت اس کی حمیت اور اس کی رگ احتساب کیوں نہیں پھڑکتی اور وہ ان کے خلاف کوئی اقدام کرنے کے لئے کیوں آمادہ نہیں ہے۔
آخر میں ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس معاملہ پر سنجیدگی سے غور کرے اور اس کا ایکشن لے۔ مرزائی خواہ بھارت میں خواہ پاکستان میں ہیں۔ خواہ یورپ میں اور خواہ