پھر مرزائیوں کا اتنا خفیہ اور رازدارانہ نظام ہے کہ کسی کو معلوم نہیں ہونے دیتے کہ وہ کیا مشاورتیں کر رہے ہیں اور کون کون سے سازشی منصوبے ان کے زیربحث ہیں۔ بہرحال حالات ہماری معلومات اور وجدان کی تصدیق کریں گے اور جلد یا بدیر حکومت تسلیم کرے گی کہ ان کا جلسہ محض ایک فراڈ ہے۔ اس میں اسلام اسلام کی تسبیح ایک دھوکہ ہے۔ اصل میں یہ تنظیم یہودیوں اور دوسری سامراجی طاقتوں کی ایجنٹ ہے اور یہ اجتماع اور ان کی یہ مشاورتیں پاکستان کی سالمیت اور وجود کے خلاف ہوتی رہی ہیں۔
قابل اعتراض
مرزائیوں کے ربوہ کے سالانہ جلسہ میں ہمیشہ باتیں ایسی سامنے آتی ہیں جو سخت قابل اعتراض ہیں اور جن کا نوٹس لینا ضروری ہے۔ ۷؍ستمبر ۱۹۷۴ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے مرزائیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا۔ اس وقت سے مرزائیوں کا رویہ پہلے سے کئی گنا زیادہ حکومت اور مسلمانوں کے خلاف ہوگیا ہے۔ مسلمانوں کو وہ پہلے ہی کافر اور پکے کافر کہتے ہیں۔ ختم نبوت کے دینی عقیدے کی اہمیت کے پیش نظر انتہائی خلوص سے تحفظ عقیدۂ ختم نبوت اور رد مرزائیت کا کام کرنے والوں کو وہ حرامزادہ اور کنجریوں کی اولاد کہتے ہیں۔
گزشتہ حکومت کے دور میں باوجودیکہ ستمبر ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا تھا۔ لیکن حکومت کی سطح سے ان کے ساتھ غیرمسلموں کا ساتھ کیا معاملہ کیا جاتا ان کو پوری طرح نوازا جاتا رہا۔ ان کے سالانہ جلسے کے موقعوں پر ان کی بے جانازبرداری ہوتی رہی۔ پولیس اور سیکورٹی کے بے پناہ انتظامات ہوئے۔
حالانکہ یہ ان کا سالانہ جلسہ تھا۔ اس کے انتظام اور دوسرے کام ان کی اپنی ذمہ داری تھی۔ اسی طرح سرکاری سکولوں کی عمارتیں جو کبھی مرزائیوں کی انجمن کی ملکیت تھیں۔ لیکن اب قومی ملکیت میں آنے کے بعد سرکاری املاک، میں وہ مرزائیوں کو مہمان خانوں کے طورپر استعمال کرنے کے لئے دی گئیں۔ چنانچہ تعلیم الاسلام کالج کی پرانی عمارت میں ضلع وشہر لاہور، ضلع وشہر کیمبل پور ضلع ہزارہ اور ضلع لائل پور کے مرزائی ٹھہرے ہوئے تھے۔ بشیر ہال تعلیم الاسلام ہائی سکول کی بلڈنگ میں ضلع وشہر گجرات کے مرزائی تعلیم الاسلام کی اصل بلڈنگ میں ضلع ساہیوال ضلع جہلم ضلع ملتان اور خیرپور ڈویژن کے مرزائی اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے بورڈنگ میں ضلع گوجرانوالہ اور ضلع ڈیرہ غازیخان کے مرزائی ٹھہرائے گئے تھے۔