ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ بعض حضرات کی یہ رائے ہے کہ کفار سے استخلاص وطن ضروری ہے ۔ مجھ سے ایک صاحب نے اس کو بیان کیا ۔ میں نے کہا کہ یہ بالکل صحیح ہے مگر یہ کون سی کتاب میں ہے کہ کفار سے مراد ایک ہی قوم ہے ۔ دوسری قوم تو بہت پکے مسلمان ہیں ان سے تو استخلاص وطن ضروری ہی نہیں ۔ میں تو یہ کہتا ہوں پہلی قوم سے زیادہ دشمن اسلام اور مسلمانوں کی دوسری قوم ہے اس پر معترضین کہتے ہیں کہ یہ عدد میں کم ہیں پہلے ان سے فارغ ہو جائیں میں نے کہا کہ جب دوسری قوم زائد ہیں اور ہیں زیادہ دشمن اس لئے سب مل کر ان کو کمزور کریں تو اس میں نفع کی صورت ہے اور اگر پہلی قوم نکل گئی تو پھر دوسری قوم کی قوت بڑھ جائے گے اور ہیں یہ زیادہ دشمن اس لئے اس صورت میں زیادہ خطرہ ہے جیسا کہ مشاہدہ ہے کہ باوجود پوری قوت نہ ہونے کے اور ایک قوم کی ان کے سر پر حکومت ہونے کے آئے دن مسلمانوں کے ساتھ ناگوار برتاؤ کرتے رہتے ہیں ۔ پھر ان سے کیا بھلائی کی امید ہو سکتی ہے مگر مسلمان ہیں کہ آنکھیں بند کر کے بے ہوشی کے سے عالم میں چلے جا رہے ہیں اور ان کو اپنا دوست سمجھتے ہیں ۔ میں تو کہا کرتا ہوں کہ سفید سے کالا زہریلا ہوتا ہے اس کا ڈسا ہوا پانی نہیں مانگتا ۔ پانی کیا مانگتا خود ہی پانی ہو جاتا ہے ۔ مسلمانوں کا ایک قوم سے بھاگنا اور دوسری قوم کی بغل میں جا کر گھسنا اس کا مصداق ہے کہ فر من المطر و قر تحت المیزاب یعنی بارش سے تو بھاگا اور پرنالہ کے نیچے جا کھڑا ہوا یہ کونسی عقلمندی کی بات ہے حق تعالی فہم سلیم اور عقل کامل مسلمانوں کو نصیب فرمائیں ۔ (103) شیعوں میں فرقے نہ بننے کا سبب ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میرے سامنے دو مولوی صاحبوں میں آپس میں گفتگو ہوئی ایک نے تو انگریزوں کی زیادہ برائی بیان کی دوسرے نے ہندوؤں کی زیادہ برائی بیان کی ۔ جنہوں نے انگریزوں کی زیادہ برائی بیان کی تھی انہوں نے کہا کہ یہ ہندو بھی انگریزوں ہی کے بہکائے ہوئے ہیں اس لئے مسلمانوں سے ایسا برتاؤ کرتے ہیں دوسرے نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو انگریز بھی شیطان کے بہکائے ہوئے ہیں ان کا بھی کوئی قصور نہیں بس تو آج سے انگریزوں کو بھی برا مت کہنا جو کچھ کہنا ہو شیطان کو کہنا ۔ یہ مولوی صاحب ماشاءاللہ بڑے ذہین اور تیز ہیں ۔ ایک مرتبہ ایک شیعی نے ان سے کہا کہ مولوی صاحب آج یہ جس قدر نئے فرقے بنتے