ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
حضرت مرزا مظہر جانان رحمتہ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص ایک ہزار روپیہ لے کر آیا اور خدمت میں پیش کیا ۔ فرمایا کہ آج کل مجھ کو حاجت نہیں کیا کروں گا ۔ عرض کیا کہ حضرت کسی مصرف خیر میں میں صرف فرما دیں ۔ فرمایا کہ تمہارا نوکر ہوں ۔ منیجر ہوں ۔ خزانچی ہوں ۔ میاں خود صرف کر دو ۔ ان بزرگوں کی کیسی استغناء کی شان تھی ۔ اور ہمارے سب بزرگوں کی قریب قریب یہی شان تھی ۔ بحمد اللہ سب ایسے ہی گزرے ہیں ۔ استغناء کی شان سب میں تھی مگر ان کمالات اور مٹائے ہوئے تھے اس وصف میں وہ شان تھی جیسا کسی بزرگ کا الہام ہے ۔ حق تعالی فرماتے ہیں اولیائی تحت قبائی لا یعر فھم سوائی کا ایک نمونہ ایک حکایت سے پیش کرتا ہوں ۔ حضرت حاجی رحمتہ اللہ علیہ کا ایک خط آیا تھا نواب صاحب چھتاری کے نام جب ان کا ارادہ ہجرت کر کے مکہ معظمہ میں عمر گزارنے کا تھا اور عارضی طور پر اپنی ریاست کا انتظام کرنے کےلئے ہندوستان آئے تھے اس وقت حضرت نے ان کو لکھا تھا کہ اس نظام میں اپنے خرچ کےلئے تو ریاست سے روپیہ منگانا تجویز کریں ۔ مگر داد ذوہش کےلئے منگانے کا انتظام نہ کریں یہ بھی غیر حق کی طرف مشغولی ہے جو عابد مجرد کےلئے تو زیبا ہے مگر عاشق کےلئے زیبا نہیں اور یہ شعر کہا ۔ نان دادن خود سخائے صادق است جان دادن خود سخائے عاشق است اور یہاں مکہ میں رہ کر مشغولی بغیر حق سخت مضر ہے ۔ اور اصل بات تو یہ تھی کہ تم اپنے لئے بھی منگانا تجویز نہ کرتے اس لئے کہ کریم کے دروازہ پر کھانا باندھ کر لانا بہت ہی سوء ادب ہے ۔ مگر چونکہ تم ابتداء سے اس کے خوگر ہو اس لئے تم اپنے لئے انتظام کر کے لاؤ ورنہ موجب تشویش ہو گا اور تشویش بھی مضر ہے کیا ٹھکانا ہے حضرت کی اس بصیرت کا ۔ بزرگوں کے یہاں اس کا ہمیشہ اہتمام رہا کہ مشغولی بغیر حق نہ ہو ۔ (200) ایک بڑے کام کی بات ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ محض زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلتا ۔ کام کرنے سے کام چلتا ہے ۔ ایک بزرگ نے بہت اچھی بات لکھی ہے ۔ بڑے کام کی بات ہے کہ اے عزیز بزرگوں کے ملفوظات کے یاد کرنے کا اہتمام نہ کرو بلکہ اس کی کوشش کرو کہ تم ایسے ہو جاؤ کہ تمہاری زبان سے بھی وہی نکلنے لگے جو ان کی زبان سے نکلا ۔ اس کی ایک مثال ہے کہ ایک