ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
شغل ہو گا اس لئے میری درخواست ہے کہ آپ نے مجھ کو دی تھی اب میں بطور ہدیہ پیش کرتا ہوں واپس نہیں کرتا اور مجھے امید ہے کہ جیسے میں نے آپ کی رعایت کرتے ہوئے قبول کر لی تھی آپ میری رعایت کرتے ہوئے قبول کر لیں گے جیسے میں نے آپ کا دل خوش کیا آپ میرا دل قبول کر کے خوش کریں گے ۔ اور اگر زیادہ خیال ہے تو اس کے عوض میں میں آپ سے اور کوئی چیز لے لوں گا ۔ علاوہ مشغولی کے دوسری بات یہ ہے کہ اگر پھر کوئی دانہ ٹوٹا تو اس دانہ کو دیکھ کر مجھ نادان کو تکلیف ہو گی اور میں اس کو پڑھ بھی چکا ہوں ۔ ان صاحب نے بخوشی قبول کر لیا ۔ (298) والی کابل امیر عبدالرحمن خان کا عدل و فراست کے واقعات ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بادشاہ عادل بڑی چیز ہے ۔ پہلے سلاطین میں اکثر دین کی پابندی تھی ۔ دین کی عظمت اور وقعت تھی اگر کسی کے اندر عمل کی کوئی کوتاہی بھی تھی تب بھی عظمت اور وقعت دین کی ضرور تھی ۔ اس سے ان کے قلوب خالی نہ تھے ۔ میرے پیر بھائی محمد خان صاحب خواجہ والے ایک واقعہ امیر عبدالرحمن خان والی کابل کا بیان کرتے تھے کہ ان کی بیوی کے ہاتھ سے ایک قتل ہو گیا ۔ ایک ماما کو کسی قصور پر ریوالور سے مار ڈالا ۔ امیر عبدالرحمن خان سے ماما کے ورثاء نے فریاد کی حکم فرمایا کہ قاضی شرع کی عدالت میں دعوی دائر کر دیا جائے اور بعد تحقیق شرعی کے جو حکم ہو اس پر عمل کیا جائے ۔ چنانچہ وہاں دعوی دائر ہوا ۔ قاضی نے کہلا کر بھیجا کہ مجرم کو حراست کی ضرورت ہے مگر شاہی محل کا معاملہ ہے وہاں تک رسائی کیسے ہو سکتی ہے فورا فوج کو حکم دیا کہ قاضی صاحب کے ماتحت کام کریں باضابطہ محل سے گرفتاری ہوئی اور بیانات لئے گئے مقدمہ شروع ہو گیا ۔ امیر صاحب کے صاحبزادے امیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ عرض کیا کہ والدہ کے متعلق کیا ہو گا ۔ فرمایا کہ بیٹا میں اس میں مجبور ہوں جو حکم شرعی ہو گا وہ ہو گا اور یہ بھی فرمایا کہ تمہاری تو ماں ہے اس لئے تمہیں اس کا خیال ہے اور میری بیوی ہے اس لئے مجھ کو بھی خیال ہے مگر حکم شرعی کے سامنے چوں و چرا کی کیا گنجائش ہے اور تعجب ہے کہ تم کو اپنی بڑھیا ماں کا تو خیال ہے اور بڈھے باپ کا خیال نہیں کہ رعایت کرنے سے میدان محشر میں خدا کے سامنے گھسٹا گھسٹا پھرے گا ۔ غرض مقدمہ ہوا اور قاتلہ اقرار سے قتل ثابت ہو گیا ۔ قاضی شرع نے حکم قصاص کا صادر کر دیا ۔