ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
زیادہ تختے کے نیچے سرکا دیا مجھ کو ناگوار ہوا کہ خدا کی نعمت کی یہ بے قدری کی ۔ میں نے ایک رفیق سفر سے کہا کہ اس کو اٹھا کر اور دھو کر مجھ کو دے دو کہ کھا لوں ۔ ایک اور صاحب نے کہا کہ اگر میں کھا لوں میں نے کہا کیا حرج ہے ۔ انہوں نے اس رفیق کے ہاتھ سے لے کر کھا لی ۔ اس پر ان رئیس صاحب نے دوسرے ساتھ سے کہا کہ آج تو مجھ کو ذبح ہی کر ڈالا تمام عمر کبھی ایسی حرکت نہ کروں گا تو یہ لوگ عملا تبلیغ کرتے ہیں ۔ ایک مرتبہ میں کالپی سے ریل میں سوار ہوا ۔ ایک صاحب سرکاری عہدہ دار پہلے سے سوار تھے جو نماز کے پابند نہ تھے وہ مجھ سے باتیں کرنے لگے ۔ اس میں مغرب کا وقت ہو گیا ۔ نماز کی تیاری ہوئی ۔ خواجہ عزیزالحسن صاحب نے ان صاحب کے متعلق مجھ سے کہا کہ ان کو بھی نماز کےلئے کہا جاوے ۔ میں نے کہا کہ مجھ کو تو غیرت آتی ہے کہ جنت میں تو جاویں ، یہ اور خوشامد کرے اشرف علی ۔ غرض وہ صاحب بیٹھے رہے ہم لوگوں نے نماز پڑھی اب بعد نماز ان کو خیال تھا کہ اب یہ لوگ چونکہ میں نے نماز نہیں پڑھی اس لطف سے گفتگو نہ کریں گے مگر میں پھر ان ہی کے پاس بیٹھ گیا اور اسی لطف سے گفتگو شروع کر دی ۔ مجھ سے تو نہیں اور کسی سے کہا کہ آج سے ساری عمر کےلئے پکا نمازی ہو گیا ۔ اگر مجھ کو نماز کےلئے کہا جاتا تو مغرب کی نماز تو پڑھ لیتا مگر ساری عمر بے نمازی رہتا مگر اس نہ کہنے نے گو مغرب کی نماز تو نہیں پڑھی مگر ساری عمر کےلئے نمازی بنا دیا ۔ شریف طبیعتوں پر ایسے برتاؤں سے اثر ہوتا ہے ۔ البتہ اگر اس نیت سے سکوت کرے کہ کہہ کر کون برا سنا دے یہ تو برا ہے لیکن اگر قرآن دیکھ کر یہ نیت ہو کہ کہنے سے نہ کہنے کا زیادہ اثر ہو گا تو یہ اچھا ہے ۔ شریف طبیعتوں پر لطف کا اثر ہوتا ہی ہے تو ان کا امر بالمعروف نہی عن المنکر عملا ہوتا ہے قولا کم ہوتا ہے ۔ یہ لوگ حکیم ہوتے ہیں نبض کو پہچانتے ہیں ۔ ہر شخص کی استعداد کے مناسب معاملہ کرتے ہیں ۔ (29) امراض روحانی کا محض جاننا کافی نہیں ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ آج کل ایک بڑی غلطی بعض مشائخ کے یہاں یہ ہے کہ امراض کا علاج جانتے ہیں اور محض جاننے کو کافی سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ بدون عمل کئے ہوئے کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔ اس کی ایسی مثال ہے کہ جیسے ایک شخص نے کہا تھا کہ میں ایک پیسہ کا گھی مہینے بھر میں کھاتا ہوں ۔ صورت اس کی یہ کرتا تھا کہ گھی سامنے رکھ