ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
(519) تصنیف کا کام بھی مشکل ہے ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ تصنیف کا کام بھی بہت ہی مشکل ہے جو کام کرتا ہے وہی جانتا ہے کہ کیا کیا مشکلات پڑتی ہیں ۔ آج کل کی جو اکثر تصنیفات ہیں کہ مصنفین برساتی مینڈک کی طرح امنڈ پڑے ہیں اس وقت ان کا ذکر نہیں ان کا تو یہ قصہ ہے کہ ایک پہلو لے لیا اور رسالہ لکھ مارا چاہے اگر پھر کچھ ہوا کرے ذکر ان مصنفین کا ہے کہ جو محقق ہیں کہ جن کے سامنے ہر پہلو ہے ۔ ہر جزئی اور کلی پر نظر ہے اور اس حالت میں پھر تصنیف کرتے ہیں کہ ان کی حالت تصنیف کے وقت ایسی ہوتی ہے جیسے جان کنی کے وقت ہوتی ہے اب ایک کتاب میں لکھ رہا تھا اب تو وہ چھپ کر تیار ہو گئی مگر تصنیف کے زمانہ میں مجھے یاد ہے کہ اس کے ایک مقام پر الجھن پیدا ہوئی بہت غور اور فکر کی مگر کچھ ہ لکھ سکا بلاخر چھوڑ دیا ۔ صبح کو قرآن شریف پڑھتا ہوا جنگل گیا اسٹیشن کے قریب پہنچ کر وہ مقام حل ہوا ۔ اللہ تعالی نے بے ساختہ دل میں ڈال دیا وہاں سے محض اس خیال پر لوٹ آیا کہ کہیں ذہن سے نکل نہ جائے اور ذہول نہ ہو جائے ۔ یہاں آ کر اور وہ مضمون لکھ کر پھر جنگل گیا اور وہ مضمون صرف دو سطریں تھیں اب کسی کو کیا خبر کہ کام کرنے والے پر کیا گزرتی ہے اور دیکھنے والوں کو اس کی کیا خبر ہو گی کہ یہ دو سطریں کیا چیز ہیں ۔ (520) پنجاب سے آنے والے ایک صاحب کی بے فکری ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اس زمانہ میں رسوم کا اس قدر غلبہ ہے کہ حقائق بالکل ہی فنا ہو گئے اب اگر آنے والوں سے کسی ضروری بات کے متعلق نہ پوچھوں تب تو یہ شکایت کہ بات تک بھی نہ پوچھی اور پوچھتا ہوں تو سیدھا اور صاف جواب نہیں ملتا اگر ایسی غلطیوں پر مطلع کرتا ہوں تو بد خلق مشہور کرتے ہیں پھر اگر مطلع نہ کروں تو آخر ان کو اپنے جہل پر کس طرح اطلاع ہو غرض ہر طرح مشکل ہے اب بتلائیے ایک شخص آج ہی آئے تھے وہ مقام لاہور سے کہیں آگے ہے مگر صرف ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے اگر پورب سے آتے تو یہی خیال ہوتا کہ اس طرف ابھی سردی نہ ہو گی مگر اس طرف تو اچھی خاصی سردی شروع ہو گئی اور پنجاب میں یہاں سے بھی زیادہ ہوتی ہے مگر سردی کا کوئی سامان نہیں لائے ۔ یہ سب باتیں بے فکری کی ہیں قرآئن سے یہ بھی احتمال نہ ہوتا تھا کہ نادار مفلس ہیں اور اس بے فکری کی وجہ