ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
اور یہ حالت تھی بہار عالم حسنش دل و جاں تازہ میدارد برنگ اصحاب صورت راببو ارباب معنی را (80) طریق کی اصل حقیقت ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج کل مقصود کو غیر مقصود اور غیر مقصود کو مقصود بنا رکھا ہے اور وظائف کو تو طریق سمجھتے ہیں اور کیفیات و لذات کو اس کا ثمرہ مقصود کس قدر دھوکا ہے حالانکہ اعمال مقصود ہیں اور رضاء حق ثمرہ ہے ۔ یہ ہے طریق کی حقیقت پھر اگر ساری عمر بھی کیفیات اور لذات نہ ہوں تو کوئی بھی نقصان نہیں ۔ کام کرنے والے کی تو شان ہی دوسری ہوتی ہے وہ اس کو کب دیکھتا ہے کہ لذت آتی ہے یا نہیں ۔ جی لگتا ہے یا نہیں ۔ اگر اس پر کام کو موقوف رکھا جاوے تو خدا پرستی تو نہ ہوئی ۔ لذت پرستی نفس پرستی ہوئی ۔ اپنی ہی پوجا پاٹ میں رہا خدا کا کیا کام کیا ۔ کیوں ان فضولیات اور عبث یہ کہے کہ میرا تو جی نہیں لگتا اور نہ چکی پھرانے میں لذت اتی ہے تو کیا جواب ملے گا ۔ یہی کہو گے کہ یہ جی لگنے کی چیز نہیں عمل کی چیز ہے ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ میں ذکر کرتا ہوں مزا نہیں آتا میں نے عرفی تہذیب چھوڑ کر کہا کہ مزا تو مذی میں ہوتا ہے ۔ ذکر میں مزا کہاں ڈھونڈتا پھرتا ہے ۔ یہ سب طریق کی حقیقت سے بے خبری کی بناء پر لوگوں کو غلطیوں میں ابتلاء ہو رہا ہے ۔ (81) درویشی کی حقیقت ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ بزرگی کی چند علامتیں عوام نے انتخاب کر رکھی ہیں پھر آگے چاہیے وہ ڈاکو ہی ہو چور ہو رہزن ہو جھوٹا ہو مکار ہو فریبی ہو ۔ مگر یہ درویشی ایسا بحرذ خائر سمندر ہے کہ اس کو کوئی ناپاک نہیں کر سکتا ۔ وہ علامتیں یہ ہیں کہ کپڑے رنگے ہوں ۔ بڑے سے دانوں کی تسبیح ہاتھ میں ہو ۔ کسی سے بات نہ کرتے ہوں ۔ بڑا چوغہ زیب تن ہو ۔ سر پر عمامہ ہو ۔ پھر چاہے اندر یہ حالت ہو جس کو فرماتے ہیں ۔ از بروں چوں گور کافر پر حلل و اندروں قہر خدائے عزو جل از بروں طعنہ زنی بربا یزید وز درونت ننگ می وارد یزید اور عارف شیرازی ایسی ہی جامہ ریائی کے متعلق فرماتے ہیں ۔