ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
کون جاتا ہے ۔ اور ہم نے دعوی کب کیا ہے فناء نفس کا ۔ درویشی کا پیری کا ۔ ہم تو کہتے ہیں ہمارا نفس موٹا ہے پلا ہوا ہے ۔ ہم نہ درویش نہ پیر ۔ ہم تو طالب علم ہیں اگر طالب علمی کا نام درویشی ہے تو ہم درویش ہیں ۔ اگر اس کے علاوہ کسی اور چیز کا نام درویشی ہے تو ہم درویش نہیں ۔ اور سنئے نہ یہاں بزرگی تقسیم ہوتی ہے نہ ولایت نہ قطبیت اور نہ غوثیت نہ ابدالیت نہ یہاں کشف ہے نہ کرامت نہ کیفیات نہ حظوط نہ لذائذ ۔ یہاں تو صرف انسانیت اور آدمیت تقسیم ہوتی ہے اگر انسان بننا ہو آدمی بننا ہو آؤ ورنہ جہاں وہ چیزیں تقسیم ہوتی ہیں وہاں جاؤ ۔ بہت لوگ دکانیں جمائے انتظار میں بیٹھے ہیں یہ زمانہ ہر قسم کے لوگوں سے خالی نہیں پر ہے ۔ ایک پیر کی حکایت سنی ہے کہ جو ان کے پاس جاتا ہے اس کو پنکھا جھلتے ہیں ۔ میں ان کی بزرگی کا تو قائل ہو گیا مگر حکمت کا غیر معتقد بالکل عقل کے خلاف بات ہے یہ فناء کیسی کہ دوسروں کو تکلیف دے کر بزرگی پر رجسٹری کرائی جاوے ۔ یہ بھی سنا ہے کہ اگر کوئی انکار کرتا ہے تو اس پر خفا ہوتے ہیں نہ معلوم اس میں کیا مصلحت ہے ادمی کو اعتدال اور حدود پر رہنا چاہیے ۔ (412) راحت پہنچانا فرض ہے ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میں نے تو ہمیشہ اس کا خیال رکھا کہ حدود سے تجاوز نہ ہو اسی لئے میں نے اپنے بزرگوں کی جوتیاں اٹھانے کی خدمت نہیں کی محض اس خیال سے کہ وہ پسند نہ کرتے تھے کہیں ان کو تکلیف نہ ہو اور تکلیف دینا حدود سے تجاوز ہے اور یہ اللہ کی طرف سے بات تھی کہ باوجود میرے ناکارہ ہونے کے سبب اکابر لحاظ فرماتے تھے اس لئے میں خدمت کرنے کے متعلق یہ سمجھتا تھا کہ راحت پہنچانا تو فرض ہے اور خدمت کرنا فرض نہیں اگر ترک خدمت میں راحت ہے ترک خدمت کرو اور اگر خدمت سے راحت کرو خدمت کرو ۔ خلاصہ یہ ہے کہ تکلیف مت پہنچاؤ و راحت پہنچاؤ یہی حقیقت ہے ادب کی ۔ تعظیم و تکریم دست بوسی پچھلے پیروں اٹھنے کو ادب نہیں کہتے ادب کہتے ہیں راحت آسانی کو مگر حقیقت پر آج کل پردہ پڑا ہے ان رسوم کی بدولت حقائق مستور ہو گئیں میں ان کو ظاہر کرتا ہوں اس پر مجھ سے خفا ہیں مگر ان کی خفگی اور ناراضگی کی وجہ سے حقائق کو کیسے ظاہر نہ کروں اور کسی کی ناراضی اور خوشی سے لینا ہی کیا اللہ کے راضی رکھنے کی ضرورت ہے وہ اگر راضی ہیں تو سارا عالم ناراض ہو کچھ پروا نہیں اور اگر وہ ناراض ہیں اور سارا علم خوش ہو ہیچ در ہیچ ۔ ہر