ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
کی تدبیر ہے خود مقصود بالذات نہیں لہذا بدعت نہیں سو طریق میںجو ایسی چیزیں ہیں یہ سب تدابیر کے درجہ میں ہیں سو اگر طبیب جسمانی کی تدابیر کو بدعت کہا جائے تو یہ بھی بدعت کہلائی جا سکتی ہیں ورنہ نہیں ۔ (244) کلام اللہ کا حفظ ہو جانا عطاء خداوندی ہے ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو یقینا تمام قرآن شریف حفظ یاد تھا اس میں شبہ کیا ہے حضرت جبریل علیہ السلام سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم دور بھی فرماتے تھے اور یہ حفظ ہو جانا قرآن مجید کا محض عطاء خداوندی ہے اور بے حد عجیب بات ہے کہ اتنی بڑی کتاب کیسے یاد ہو جاتی ہے اور وہ بھی چھوٹے بچوں کو آخر یہ بات کیا ہے بجز عطاء حق و اعجاز قرآن کے ۔ پھر فرمایا کہ قرآن شریف پر ایک واقعہ یاد آ گیا ۔ یہاں پر قریب ہی ایک قصبہ ہے جلال آباد وہاں پر ایک جبہ تبرک مشہور ہے اس کے ساتھ ایک حمائل شریف ہے عام طور پر کہتے ہیں کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے ۔ ایک رئیس شیعی ہیں جہنجانہ میں اور قاضی اشتیاق احمد ایک بڑے ذہین ہیں ۔ ایک بار ان رئیس کے گھر زیارت ہوئی مگر وہ ریئس زیادہ تر حمائل شریف کی طرف ملتفت تھے چونکہ اس کی نسبت حضرت علی کی طرف تھی ۔ ان سنی صاحب نے ان شیعی سے کہا کہ آپ جس قدر توجہ اس حمائل شریف کی طرف کرتے ہیں جبہ کی طرف اس کا عشر عشیر بھی التفات نہیں ان شیعی نے کہا کہ یہ حضرت امیر المومنین علی مرتضی کے دست مبارک کی لکھی ہوئی ہے ۔ ان سنی صاحب نے کہا کہ ہم کو تو یقین نہیں کہا کہ تم بد عقیدہ ہو ۔ ان سنی نے کہا کہ کیا آپ کو پورا یقین ہے انہوں نے کہا بیشک مجھ کو یقین ہے ان سنی نے کہا مگر بالکل یقین ہے انہوں نے کہا کہ بالکل یقین ہے دریافت کیا کہ بالکل شک نہیں کہا کہ بالکل شک نہیں وہ شیعی بے چارے خالی الذہن تھے سمجھے نہیں کہ یہ کیا نتیجہ نکالیں گے جس وقت یہ گفتگو ہو رہی تھی مجمع کافی تھا ان سنی صاحب نے کہا کہ تو بس آج شیعی اور سنی مذاہب کا کافی فیصلہ ہو گیا اب آپ یہ دیکھ لیں کہ یہ قرآن سنیوں کے قرآن سے ملتا جلتا ہے یا نہیں اگر اس کے موافق ہے تو سنیوں کا مذہب صحیح ہے ورنہ شیعوں کا وہ شیعی رئیس دم بخود رہ گئے بس اتنا کہا کہ اشتیاق تو بڑا شریر ہے ۔ اس نے کہا کہ یہ تو جو کچھ آپ فرما دیں مجھ کو تسلیم ہے لیکن گفتگو شرارت عدم شرارت پر نہیں گفتگو