ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
مرید ہو گئے ۔ پھر دیوبند واپس آئے اور حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پھر عرض کیا کہ حضرت بیعت کر لیجئے ۔ فرمایا کہ گنگوہ حضرت سے تو بیعت ہو آئے پھر یہ درخواست کیسی ۔ عرض کیا کہ وہاں تو آپ کے فرمانے سے بیعت ہو آیا اور بھی جس جس سے آپ فرما دیں بیعت ہو جاؤں ۔ باقی اصل بیعت تو آپ ہی سے ہونگا کیا ٹھکانا ہے اس محبت اور اطاعت کا کیسے سمجھدار آدمی تھے مخالفت بھی نہیں کی شیخ کی اور درخواست بھی نہ چھوڑی آخر مولانا کو بیعت کرنا پڑا اور واقعی بیعت تو وہی ہے جو ایسی طلب کے بعد باقی اب تو بیعت اکثر محض رسم ہی رسم رہ گئی ہے لوگ ہیں کہ بیعت پر مرے جاتے ہیں اس سے ان کے فہم و فساد اعتقاد کا کہ غیر ضروری کو ضروری سمجھتا ہے یا غرض کا اندازہ ہو جاتا ہے ۔ اور اس غرض کی بالکل ایسی مثال ہے جیسے ایک عورت ہے اس کو شہوت تو ہے نہیں مگر نان نفقہ کی ضرورت ہے وہ ایک شخص سے نکاح چاہتی ہے اس نے کہا کہ بیوی نکاح تو میں کرتا نہیں ہاں پچاس روپیہ ماہوار تجھ کو دیا کروں گا تو اس عورت کا اس میں کیا حرج ہے لیکن اگر نکاح ہی پر اصرار ہے تو معلوم ہوا کہ اس میں شہوت ہے ایسے ہی یہاں سمجھ لیا جائے کہ جب بدون بیعت ہوئے ہی وہ کام ہو جائے جو بیعت ہونے سے ہوتا تو پھر بیعت پر کیوں اصرار ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دال میں کالا ہے کوئی نفسانی غرض قلب میں بیٹھ ہوئی جو مثل شہوت کے ہے اور میں اس کو بتلائے دیتا ہوں کہ کام کرنا مقصود نہیں نام کرنا مقصود ہے کہ ہم بھی فلاں سے تعلق رکھنے والے ہیں جس کا منشا جاہ ہے اور یہ ناشی ہے کبر سے گو بظاہر دین کی بات ہے مگر اس میں یہ شخص ایسے امراض کا شکار بنا ہوا ہے جو ام الامراض ہے ۔ یہ حقیقت ہے آج کل کے اصرار بیعت کی جو میں سمجھا ہوں ۔ اللہ کا شکر ہے کہ مجھ کو نبض شناسی عطاء فرمائی ۔ (497) حضرت کا والد مرحوم کے ترکہ سے چاروں منکوحات کی ادائیگی مہر کا اہتمام ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ والد صاحب مرحوم نے چار نکاح کئے تھے اس وقت عام دستور تھا معافی مہر کا اسی لئے اس طرف کبھی التفات نہیں ہوا مگر ایک بار دفعۃ تنبہ ہوا (اور اس عام عادت پر قناعت نہ ہوئی ۔ اس بناء پر میرے حصہ پر شرعی مسئلہ کی رو سے جو رقم بیٹھی تھی اس کو تقسیم کرنے کا انتظام کیا اس لئے کہ وہ جائیداد تو والد صاحب کی ہم ہی لوگوں کو پہنچی