ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
جس چیز کا انتطار ہوتا ہے وہ دو چیزیں ہیں ایک اعتماد اور ایک مناسبت ۔ فرمایا کہ اس مناسبت کے شرط ہونے پر یاد آیا کہ حضرت مرزا مظہر جان جانان رحمتہ اللہ علیہ کے پاس ایک عالم مرید ہونے آئے ان کی داڑھی حد سے بڑھی ہوئی تھی ۔ حضرت مرزا صاحب کے لطافت طبع مشہور ہے حضرت نے ان صاحب کی صورت دیکھ کر آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا اور فرمایا کہو میاں کیا کہتے ہو اور کیا چاہتے ہو جلدی کہو ۔ عرض کیا کہ مرید ہونے آیا ہوں ۔ فرمایا کہ فیض کےلئے مناسبت شرط ہے آدمی اور ریچھ میں کیا مناسبت یہ صاحب وہاں سے جھلاتے ہوئے چل دئے کہ یہ کیا بزرگی ہے مگر تھے طالب بہت جگہ پھرے مگر جیسا شیخ چاہتے تھے کہیں نظر نہ آیا تو داڑھی ٹھیک کرا کر پھر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے دریافت فرمایا کون ہو عرض کیا کہ فلاں شخص ہوں فرمایا ہاں دیکھو اب آدمیوں کی سی صورت ہوئی اب ہم مرید کر لیں گے ۔ پھر فرمایا لوگ مجھ کو بد نام کرتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے ہیں کہ ایسا کرنے والا میں ہی اکیلا نہیں ہوں مجھ سے پہلے بھی ایسے گزرے ہیں کہ محض ظاہری صورت پر عدم مناسبت کا حکم لگا دیا اور یہ کہہ دیا کہ فیض نہ ہو گا ۔ میں تو ایسی جلدی فیصلہ بھی نہیں کرتا اپنے عدم تفرد پرایک شعر یاد آیا ۔ نہ تنہا من دریں میخانہ مستم جنید و شبلی و عطار شد مست (441) کسی حال کے غلبہ کی مثال ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ بعض وقت ان حضرات پر کسی حال کا غلبہ ہو جاتا ہے اس کی وجہ سے کسی خاص علم سے ذہول ہو جاتا ہے علم سلب نہیں ہوتا ایسے بہت سے بزرگ گزرے ہیں کہ غلبہ کے وقت ذہول ہو گیا اس لئے میں کہا کرتا ہوں کہ وہ حضرات معذور ہیں ۔ اس کی ایسی مثال ہے کہ جیسے کوئی علامہ سو رہا تو علم اس کا سلب تھوڑا ہی ہو گیا جس وقت اٹھے گا ویسا ہی علم ہو گا جیسا تھا یا کسی علامہ کو نشہ کی چیز کھلا دی جاوے تو اس کا نشہ کی حالت میں تو ایک عامی اور علامہ برابر مگر جب نشہ اتر جاوے گا پھر اس کے ویسے ہی علوم موجود بس وہ غلبہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے جیسے نیند یا نشہ جو اکثر ہر وقت نہیں رہتا لیکن اگر ہر وقت کسی پر رہے وہ ہر وقت معذور ہے ۔ کان پور میں ایک عالم تھے ان پر فالج کا مرض پڑا یہاں تک نوبت ہوئی الحمد شریف تک یاد نہ رہی تھی جب مرض سے کچھ افاقہ ہوا تو انہوں نے الحمد شریف سبقا سبقا یاد کی اور یاد ہونے کی خوشی میں ان کے بھائی نے ایک بڑی معقول رقم کی