ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
سماع ہے کہتے ہیں کہ انہوں نے سنا تھا ہم نہیں سنیں گے مگر یہ کوئی نہیں کہتا کہ حسین بن منصور نے انا الحق کہا تھا ہم بھی کہیں گے اس لئے وحدۃ الوجود کے مسئلہ کا اس میں کوئی جوڑنہ تھا ۔ (217) السنۃ الجلیہ کے مضامین ایک سلسلسہ گفتگو میں فرمایا کہ اپنی رائے سے کسی قسم کا مراقبہ وغیرہ کرنا بدوں مصلح کی اجازت کے مناسب نہیں بلکہ بعض اوقات بجائے نفع کے مضرت کا اندیشہ ہے کبھی ایسا نہیں کرنا چاہیے ۔ جیسے مریض کا اپنی رائے سے کوئی دوا کھانا ۔ (218) مصلح کی اجازت کے بغیر کسی قسم کا مراقبہ مناسب نہیں ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ السنۃ الجلیہ فی الچشتیہ العلیہ جو بزرگان دین کی نصرت میں میں نے لکھا ہے اس رسالہ میں تین باب ہیں اول میں ان حضرات کے وہ اقوال جن میں انہوں نے اتباع شریعت کی تاکید فرمائی ہے ثانی میں ان کے بعض و افعال جن سے خود ان کا شدت کے ساتھ متبع شریعت ہونا معلوم ہوتا ہے ۔ ثالث میں بعض ایسے اقوال یا افعال کی توجیہ جو خلاف ظاہر حالت غلبہ میں یا کسی مخفی عارض سے ان سے صادر ہو گئے ایسے امور متعدد ہیں مگر ان میں سے ایک خاص اشکال کے متعلق جو کثیر الوقوع اور کثیر التذکرہ ہے نمونہ کے طور پر عرض کرتا ہوں اور وہ سماع کے متعلق ہے اس میں مختصر تفصیل یہ ہے کہ مزا میر کو تو ان بزرگوں نے بڑی سختی سے منع کیا ہے خود سلطان جی کا ارشاد بھی ان کے ملفوظات فوائد الفواد میں چھپا ہوا موجود ہے اور بے مزا میر بھی آج کل کا سا سماع نہ تھا جیسے کہ بریلی میں ایک مجلس سماع میں کلکٹر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس کو کہ دونوں یورپین تھے مدعو کیا گیا اور بوقت سماع ان پر بھی وجد کی سی کیفیت ہونے لگی تھی ۔ کیا یہ حالت محمودہ تھی جس میں ایمان بھی شرط نہیں ۔ پھر اس کو نہایت فخر کے ساتھ بیان کیا گیا اس غلو کی کوئی حد ہے بڑا ہی دھوکہ ہے اور اس پر لوگوں کے فعل سے استدلال کرنا سخت جہل ہے اور علاوہ اس کے کیا ایک ہی چیز میں ان کا اتباع یا ان کے قول و فعل سے استدلال کرنا رہ گیا ۔ اور ان کے طاعات و مجاہدات میں ان کا اتباع نہیں کیا جاتا چنانچہ خود ان ہی کتابوں میں ان کے حالات کتاب و سنت پر عمل کرنے کے بھی تو لکھے ہیں ان کو کیوں نہیں اختیار کرتے ۔ سنتہ جلیہ کے لکھنے کے وقت میرے پاس ان حضرات