ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ صوفیہ اور فقہاء دونوں حکماء ہیں ان کے کلام میں بحمد اللہ باہم تعارض نہیں لیکن سمجھنے کےلئے عقل اور فہم کی ضرورت ہے اگر فہم نہ ہو تو ٹھوکریں ہی کھاتا پھرے گا اور اکثر دو شخصوں میں جو اختلاف ہوتا ہے ان کے غیر محقق ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے اگر دونوں محقق ہوں تو اختلاف کچھ بھی نہیں دونوں ایک ہی ہیں ۔ جیسے اگر کسی کو ایک چیز کی دو جدا جدا نظر آویں تو اس کی نظر کا قصور ہے جیسے بھینگے کو ایک چیز کے دو نظر آیا کرتے ہیں ۔ اسی کو مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ شاہ احوال کرو در راہ خدا آں دور مساز خدائی را جدا (192) طریق اصلاح کا باب نہایت نازک ہے ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ طریق اصلاح کا باب نہایت ہی نازک ہے ۔ اس میں طالب کی ہمت بڑھانے کےلئے عنوانات اختیار کئے جاتے ہیں اور اس کی سخت ضرورت ہے مایوسی اور ہر اس کو تو کبھی اس طریق میں راہ ہی نہ دیا جائے مگر یہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ اہل فن کے ہاتھ میں ہاتھ ہو ایسے صاحب فن کو اصلاح میں شیخ کامل بھی کہتے ہیں مراد اس سے ماہر فن ہی ہے کہ طالب کی کوئی بھی حالت ہو اس کو کام میں لگائے رکھے اس کو سمجھا دے کہ وہ چلا چلے ادھر ادھر نہ دیکھے ۔ مثلا اگر کوئی غیر اختیاری حادثہ پیش آئے جیسے بیماری وغیرہ ہے تو اس وقت اس کو بھی سمجھا جائے کہ قلت اعمال کی وجہ سے مایوس نہ ہو وہ ہمارے نزدیک کمی ہے مگر چونکہ امر کے موافق ہے اس لئے ان کے نزدیک وہی کامل ہے ۔ سنئے اس پر ایک صاف دلیل یاد آئی حق تعالی فرماتے ہیں فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ کوئی خیر ذرہ سے کم تو نہیں ہو گی اس پر بھی وعدہ ہے اجر کا اور یرہ میں ایک لطیف اشارہ ہے کہ اجرت عمل سے زیادہ ملے گی کیونکہ اگر ذرہ کے برابر ہوئی تو عادۃ نظر بھی نہ آئے گی اس لئے وہ اس ذرہ ہی کو پہاڑ بنا دیں گے وہ قطرہ کو دریا بنا دیں گے ۔ (193) ہمارے بزرگوں کی شان ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ہمارے بزرگوں کی شان ہی کچھ اور تھی اور آج کسی میں نہیں پائی جاتی یہ حضرات اپنے کو مٹائے ہوئے تھے ورنہ وہ اپنی شان تحقیق اور کمالات میں غزالی اور رازی سے کم نہ تھے اگر شبہ ہو تو ان حضرات کی تحقیقات اور ملفوظات بھی موجود ہیں