ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ جن لوگوں پر ڈانٹ ڈپٹ اور روک ٹوک زیادہ کرتا ہوں یہ واقعہ ہے کہ ان کے متعلق یہ جی چاہتا ہے کہ یہ مجھ سے اچھے ہو جائیں گو عام لوگ اس کو عدم مناسبت اور بے تعلقی کی دلیل سمجھتے ہیں ۔ دیکھئے جس لڑکے کو استاد ڈانتا ڈپٹتا مارتا پیٹتا رہتا ہے سمجھ لو کہ اس کی طرف خاص توجہ ہے شفقت ہے اس کو کسی قابل بنانا چاہتا ہے یا باپ اپنی اولاد کو مارتا ہے تو کیا یہ بے تعلقی ہے کوئی عاقل یہ کہہ سکتا ہے ہرگز نہیں بلکہ ہر عاقل اور سمجھدار شخص یہی کہے گا کہ اس کو بنا رہا ہے سنوار رہا ہے ایک مولوی صاحب یہاں چندے مقیم تھے اور تھے بہت خوش وضع اور پر تکلف کبھی اصلاح کےلئے ان کو روک ٹوک کرتا ڈانٹ ڈپٹ کرتا تو قرائن سے معلوم ہوا کہ ان کو ناگوار ہوتا ۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ مجھ ہی کو کونسی غرض ہے میں نے اپنے طرز کو بدل دیا اور ان پر ظاہر بھی کر دیا بہت خوش ہوئے کہ میری تعظیم و تکریم ہونے لگی حالانکہ یہ رنج کی بات تھی ۔ مگر سمجھدار اور فہیم شخص ہی کے لئے یہ سب کچھ ہے بد فہم کوڑ مغز کےلئے کچھ بھی نہیں ۔ (393) عالمگیر کا عدل و انصاف ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بعض سلاطین تو سلطنتیں کیا کرتے ہیں منہ چڑھاتے ہیں سلطنت اور حکومت تو عالمگیر رحمتہ اللہ علیہ نے کی ہے کہ کسی پر ظلم نہیں کیا عدل اور انصاف کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا مظلوم کی ہمیشہ داد رسی کی کسی جگہ کی نسبت معلوم ہوتا کہ فلاں جگہ کسی قابو یافتہ شخص نے یا راجہ نے کسی پر ظلم کیا خود تنہا غیر شنا ساہیئت میں پہنچتے اور تحقیق کرتے اور اس حاکم کے عین دربار میں سر پر تاج رکھ کر تخت پر پہنچ جاتے اور اس کا تدارک کرتے نہ فوج نہ پلٹن خدا داد رکب تھا ہیئت تھی حقیقت تو یہ ہے کہ سلطنت اور حکومت کرنا تو دینداروں ہی کا کام ہے جو سوائے خدا کے کسی سے نہیں ڈرتے بے دینوی کا کام نہیں پھر اگر کہیں یہ بد دین مسلط ہوں تو اس کی وجہ سے کہا کرتا ہوں کہ ان بد دینوں میں کوئی خوبی نہیں جس کی وجہ سے ان کو سلطنت دی گئی بلکہ ہماری بد اعمالی اور ہمارے نقص کی وجہ سے سزا کے طور پر ہم پر ان کو مسلط کیا گیا ۔ پھر فرمایا کہ عالمگیر رحمتہ اللہ علیہ متبع شریعت متبع سنت تھے اس لئے وہ حدود سے تجاوز نہیں کر سکتے تھے جیسا ان کو بدنام کیا گیا ہے میں ان کے مزار پر گیا ہوں حیدر آباد دکن سے واپسی پر اتفاق ہو گیا ۔ مزار پر وجدانا انوار معلوم ہوتے تھے اور یہ اتباع