ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
اعضاء تو دھل گئے صرف مسح رہ گیا لاؤ مسح بھی کر لیں وضو ہی ہو جاوے گا ۔ چنانچہ مسح بھی کر لیا جس سے نصف خارش جاتی رہی پھر خیال آیا کہ وضو تو ہو ہی گیا لاؤ نماز بھی پڑھ لیں ۔ بس نماز کی نیت باندھنا تھا کہ دفعتا تمام خارش بند ہو گئی ۔ اس نماز کے بعد دوسری نماز کا وقت آیا پھر وہی خارش پھر وضو کر کے نماز شروع کی خارش بند اب یہی سلسلہ جاری ہو گیا وہ شخص اب سمجھا اور کہنے لگا واہ حضرت یہ تو مجھ پر اچھا سپاہی مسلط کیا غرض پکا نمازی ہو گیا ۔ اب ہندوستان میں آیا خیال اور نیت یہ تھی کہ ناچ دیکھنا نہ چھوڑوں گا ۔ رہا نماز کا معاملہ تو معاملہ نماز کے وقت ناچ میں سے اٹھ کر آیا کروں گا اول موقع پر ناچ میں جانے کا ارادہ کیا ۔ دل میں خیال آیا کہ بڑے شرم کی بات ہے ناچ دیکھ کر پھر یہی منہ لے کر مسجد میں جاؤں بڑی بے غیرتی کی بات ہے ۔ بس ناچ بھی چھوٹ گیا ۔ یہ حضرت کی برکت تھی سو ہم میں ایسی برکت کہاں اس لئے ہم کو سیاسی تدابیر کی ضرورت ہوتی ہے جس کو لوگ تنگی سمجھتے ہیں ۔ (451) دعا کی وسعت ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ اس میں تو کوئی بھی تعجب نہیں اگر کسی بزرگ کی دعاء مستجاب ہو جائے اور اس کا ظہور ہو جائے ۔ دعاء تو وہ چیز ہے اور اس میں ایسی وسعت ہے کہ شیطان نے عین مردودیت کے وقت دعاء بھی عجیب شان میں کی اور قبول ہوئی ۔ اسی سلسلہ میں فرمایا کہ میں اور بھائی اکبر علی مرحوم ایک مجذوب کی دعاء کی برکت سے جو بصورت پیشین گوئی ظاہر ہوئی تھی پیدا ہوئے اور انہوں نے دعاء ہی کے وقت نام بھی رکھ دیئے تھے کہ ایک کا اشرف علی نام ہو گا اور ایک کا اکبر علی ۔ اور یہ بھی فرمایا تھا کہ ایک ہمارا ہو گا وہ حافظ مولوی ہو گا اور دوسرا تمہارا ہو گا اور چونکہ میں ایک مجذوب کی دعاء سے پیدا ہوا ہوں یہ خاص رنگ آزادی طبیعت میں اسی کا اثر ہے اس ہی لئے دوسرے اہل رسم کی رائے میں اور میری رائے میں اکثر توافق نہیں ہو سکتا ۔ میں دوسرے کا تابع ہو سکتا ہوں مگر رائے میں میں متفق نہیں ہو سکتا میں آزادی کی رائے دیتا ہوں اہل رسم مصالح کو دیکھتے ہیں ۔ دیوبند میں حافظ احمد صاحب مرحوم کا اور رنگ تھا جس میں آزادی غالب تھی اور مولوی حبیب الرحمن صاحب مرحوم کا اور رنگ تھا جس میں مصالح غالب تھے ۔ (452) بعض جگہ اصلاح قوت سے ہوتی ہے