ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
یہاں یہ اصول نہ ہوتے تو کیا دق کرنے کےلئے بد فہم لوگ یہاں بھی کچھ کم آتے ہیں مگر بحمد اللہ اپنے بزرگوں کی دعاء کی برکت سے اور اصول صحیحہ کی وجہ سے یہاں کسی کی نہیں چلتی اور الحمد للہ نہ بجز رضاء حق کے یہاں کوئی چیز مقصود ہے ۔ مگر لوگوں نے اصول صحیحہ کو چھوڑ دیا ہے جس سے ایک عالم کا عالم پریشانی میں مبتلا ہے حتی کہ حکومت کو اپنی رعایا سے باپ اپنے بیٹے سے استاد اپنے شاگرد سے پیر اپنے مرید سے خاوند اپنی بیوی سے آقا اپنے نوکر سے اور اگر اصول صحیحہ کا اتباع کیا جائے اور ہر چیز کو اپنی حد پر رکھا جائے تو کوئی پریشانی یا تکلیف نہیں ہو سکتی ۔ یکم رجب المرجب 1351 ھ مجلس بعد نماز ظہر یوم سہ شنبہ (534) حضرت حکیم الامت کا فتوی کئی سال سے عدالت میں چلنے والے مقدمے کا فیصلہ ایک استفتاء کے جواب کے سلسلہ میں فرمایا کہ جیسا یہ استفتاء آیا ہے اسی قسم کا ایک معاملہ نکاح و طلاق کا کانپور میں کئی سال سے عدالت میں چل رہا تھا کسی حاکم سے وہ طے نہیں ہوا وہ معاملہ ایک جنٹ انگریز کے یہاں آ گیا اس نے کہا کہ اتنے عرصہ سے یہ معاملہ عدالت میں ہے اور آج تک فیصلہ نہیں ہوا مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ تم اپنے علماء سے اس مسئلہ کا شرعی فیصلہ کرا لو اور اس کی صورت یہ ہے کہ فتوی حاصل کر لو ۔ اس کے مطابق حکم نافذ کر دیا جائے گا ۔ اس پر دونوں فریق رضا مند ہو گئے چنانچہ علمائے شہر کے دستخطوں سے فتوی لکھا گیا اب عدالت میں فریقین کو علماء کے نام بتلا کر ان کی رضا مندی کسی خاص عالم پر پوچھی گئی ۔ اب کسی پر ایک فریق رضا مند ہوا تو دوسرا نہیں ہوا کسی پر دوسرا رضا مند ہوا پہلا نہیں ہوا ۔ میں بھی اس وقت بسلسلہ ملازمت مدرسہ جامع العلوم کانپور میں قیام کئے ہوئے تھا میرے بھی دستخط اس فتوی پر تھے عمر میری اس وقت غالبا تقریبا اکیس یا بائیس سال کی ہو گی ۔ طلبہ بھی اس وقت بوجہ میری کم عمری کے مجھ سے سبق پڑھتے ہوئے جھجھکتے تھے ان ناموں کے ساتھ میرا نام بھی لیا گیا ۔ میرے نام پر دونوں فریق رضا مند اور متفق ہو گئے حاکم نے ضابطہ کے اندر میرے نام سمن جاری کر دیا میں نے بہت چاہا کہ کسی طرح یہ بلا سر سے ٹلے مگر سر آ ہی پڑی تاریخ مقرر پر عدالت میں گیا ۔ میں کسی واقعہ کا گواہ نہ تھا مسائل کی تحقیق مطلوب تھی مجھ کو عدالت کے احاطہ میں دیکھ کر تمام وکلاء اور کبیر سٹر جمع ہو گئے اور دریافت کیا کہ آپ کہاں مقدمہ کے وکیل